Maktaba Wahhabi

172 - 531
آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا جب تک میں آپ کے لیے استغفار کرنے سے روک نہ دیا جاؤں ۔‘‘[1] مانا کہ عبد اللہ بن أبی ابو طالب سے زیادہ برا تھا، اس کے ہاتھوں اسلام اور مسلمانوں کو بے شمار نقصانات اور اذیتیں پہنچیں اس نے ناموس رسالت کو نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا، پھر بھی اس نے کبھی اسلام سے اپنی برأت کا اعلان نہیں کیا تھا، مزید یہ کہ اس کے بیٹے عبد اللہ جلیل القدر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابی تھے، ان کے سر پر غزوہ بدر میں شرکت کا تاج بھی تھا،وہ اپنے باپ کے مخالف اسلام اعمال سے نالاں تو ضرور تھے، مگر ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا باپ مسلمان نہیں ہے اس عظیم المرتبت اور اللہ ورسول کے محب اور شیدائی نے رحمۃ للعالمین فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کے کفن کے لیے آپ کی قمیص مانگی تھی جو اپنے باپ کی نازیبا اور اسلام دشمن حرکتوں کی وجہ سے کبھی آپ سے یہ پیش کش بھی کر چکا تھا کہ: ’’اگر آپ کو اس کا سر مطلوب ہے تو اس کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں پر ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ [2]اور جب غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر عبد اللہ بن ابی نے یہ کہا کہ: ((لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الأعز منھا الاذل))’’جس میں اس نے اذل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو مراد لیا اور اعز سے اپنے آپ کو۔‘‘ اس موقع پر اس کے یہی بیٹے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ا س سے دو ٹوک الفاط میں کہا: ((واللّٰہ لا تفلت حتی تقرأنک الذلیل ورسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم العزیز)) ’’اللہ کی قسم, تم مدینہ واپس نہیں جا سکتے، تا آنکہ یہ اقرار نہ کرو کہ ذلیل تم ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عزیز ہیں ۔‘‘ تو اس نے اقرار کیا۔[3]کیا ایسے مخلص اور جاں نثار صحابی کی درخواست پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے باپ کو کفنانے کے لیے اس کو اپنی قمیص مبارک عنایت فرمانا، اس کی نماز جنازہ پڑھنا اور اس کے لیے استغفار کرنا آپ کی سیرت پاک اور آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صفت ’’رحمۃ العالمین‘‘ کے عین مطابق نہیں تھا۔ اگر سورۂ توبہ کی آیت کا منشاء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن أبی کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کرنا، یا اس کے حق میں استغفار اور عدم استغفار کو مساوی قرار دینا ہوتا تو آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ عرض کرنے پر کہ ((یا رسول اللّٰہ تصلی علیہ وقد نھاک ربک أن تصلی علیہ)) ’’اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے، حالانکہ آپ کے رب نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا دیا ہے۔‘‘ یہ نہ فرماتے کہ ((انمّا خیرنی اللّٰہ، فقال: استغفر لھم أولا تستغفرلھم ان تستغفر لھم سبعین مرۃ)) ’’اللہ نے مجھے محض اختیار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر بار استغفار کرو‘‘ اور یہ بھی نہ فرماتے: ((وسأ زید علی السبعین)) ’’اور میں ستر سے زیادہ بار استغفار کروں گا۔‘‘
Flag Counter