Maktaba Wahhabi

171 - 531
اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿استغفرت لھم أولا تستغفرلھم﴾ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے استغفار کرنے اور استغفار نہ کرنے کا اختیار دیا ہے اور ﴿ان تسغفرلھم سبعین مرۃ﴾ کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ اگر میں ستر بار سے زیادہ بار استغفار کروں تو ا س کی مغفرت ہو جائے گی تو میں اس مقدار سے زیادہ بار استغفار کروں گا، ((لو أعلم أولو علمت أنی اِن زدت علی السبعین یُغفرلہ لزدت علیھا)) یہ تمام ارشادات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ تم کو استغفار کرنے اور استغفار نہ کرنے کا اختیار ہے اور ستر بار استغفار کرنے سے مراد مبالغہ نہیں ہے، بلکہ تعداد ہی مراد ہے،ا لبتہ اس کے ساتھ ﴿فلن یغفر اللّٰہ لھم﴾ اللہ ان کی ہر گز مغفرت نہیں فرمائے گا۔‘‘ کی جو قید لگی ہوئی تو وہ بھی ستر بار استغفار کرنے سے متعلق ہے، اس سے زیادہ بار استغفار کرنے سے متعلق نہیں ہے، ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ نہ فرماتے جو آپ نے فرمایا۔ ابھی جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ ارشادات نبوی کی روشنی میں ارشاد ربانی کے مفہوم سے متعلق تھا اور جن لوگوں نے زیر بحث حدیث کا انکار کیا ہے ان سب نے آیت اور حدیث دونوں کا مطالعہ عقل کی روشنی میں کیا ہے اور آیت کا مفہوم مروجہ عرب اسلوب بیان کی بنیاد پر متعین کیا ہے، کسی نے اس پہلو سے دونوں پر نظر نہیں ڈالی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افصح العرب تھے، قرآن آپ پر نازل ہوا تھا اور اللہ کا رسول ہونے کی وجہ سے آپ اس کے اولین مخاطب تھے اس تناظر میں آپ نے آیت کا جو مفہوم سمجھا تھا صرف وہی حق تھا۔ بلاشبہ آیت کا تعلق منافقین سے ہے اور منافقین صریح مشرکین اور کفار سے زیادہ اللہ اور رسول کے دشمن تھے، باین ہمہ ان کے ظاہری حالات کے پیش نظر ان کا شمار مسلمانوں ہی میں ہوتا تھا، وہ جمعہ و جماعت میں شریک ہوتے تھے اور ان کے ساتھ سارے معاملات مسلمانوں ہی جیسے ہوتے تھے، اور آیت میں ان کے لیے استغفار کرنے اور نہ کرنے کا جو حکم آیا ہے وہ ایک عام حکم ہے، منافقین کے کسی خاص فرد سے متعلق نہیں ہے،مزید یہ کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے صریح لفظوں میں اپنے رسول کو منافقین کے لیے استغفار کرنے یا ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ہے یہ حکم تو آیت نمبر ۸۲ میں دیا گیا ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبد اللہ بن أبی کی نماز جنازہ پڑھنا، اس کے لیے استغفار کرنا، کفن کے لیے اس کو اپنی قمیص عنایت فرمانا اور برکت کی غرض سے اس کے جسم پر لعاب دھن تھوکنا کوئی بھی چیز آیت کے خلاف نہیں ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ پر عتاب فرماتا۔ اس واقعہ پر غور کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے واقعہ کو سامنے رکھنا چاہیے، جن کی وفات شرک پر ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے آخری وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید کو قبول کرنے سے بصراحت انکار کر دیا تھا، اس کے باوجود آپ نے یہ فرمایا تھا: ((اما واللّٰہ لاستغفرن لک مالم أنہ عنک)) ’’اللہ کی قسم! میں اس وقت تک
Flag Counter