Maktaba Wahhabi

160 - 531
۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے وضو میں اطالہ ثابت نہیں ‘‘ اس دعوی کے جواب میں عرض ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اطالہ کے ثبوت کے لیے اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ آپ کا ایک صحابی یہ بیان کر رہا ہے کہ اس نے آپ کو اطالہ کرتے دیکھا ہے اور پھر اس نے نے عملاً کر کے دکھا بھی دیا۔ ۲۔ وضو کی دوسری روایات میں کسی راوی نے یہ بات نہیں بیان کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے ثبوت کے لیے ایک سے زیادہ صحابیوں کا مشاہدہ یا رؤیت ضروری ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو قرآن و حدیث سے دلیل درکار ہے اور اگر ضروری نہیں تو مذکورہ حدیث اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے، نیز عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ اور ابو عبید نے ’’حسن سند‘‘ سے نقل کیا ہے۔ [1] اور یہ معلوم و مشہور ہے کہ ابن عمر سنت نبوی کے مبالغہ کی حد تک متبع تھے۔ دراصل وضو سے متعلقہ دوسری روایتوں میں اطالہ یا اعضائے وضوء کو مطلوبہ حد سے زیادہ دھونے کا مسئلہ نہیں بیان ہوا ہے، بلکہ ان حدیثوں میں وضو کے فرائض اور سنن بیان ہوئے ہیں ، جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا موضوع فضائل وضو کا بیان ہے، نیز اس میں امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا امتیازی وصف بیان کیا گیا جس کے ذریعہ وہ قیامت میں پہچانے جائیں گے اور یہ چیز مسائل وضوء میں داخل نہیں ہے۔ میں اس کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہتا ہوں ، قرآن پاک میں متعدد مقامات پر قوم لوط کی بدچلنی اور ان پر عذاب الٰہی کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں ، لیکن سورۂ قمر میں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا ارشاد آیا ہے جو کہیں نہیں آیا ہے وہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلَقَدْ رَاوَدُوْہُ عَنْ ضَیْفِہٖ فَطَمَسْنَآ اَعْیُنَہُمْ ﴾ (القمر:۳۷) ’’درحقیقت انہوں نے اس کے مہمانوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس پر ڈورے ڈالے تو ہم نے ان کے نور بصارت کو سلب کر لیا۔‘‘ ۳۔ یہ ٹکڑا روایت کا حصہ نہیں ہے، بلکہ حضرت ابو ہریرہ کی رائے حدیث کے متن میں شامل ہو گئی ہے۔‘‘ اوپر صحیحین کی حدیثوں میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا جا چکا ہے کہ ((سمعت النبی صلي اللّٰه عليه وسلم یقول…))’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے…‘‘ اور خود وضو کرنے کے بعد یہ فرمانا بھی ان سے ثابت ہے کہ: ((ھٰکذا رأیت رسولَ اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یتوضأ)) اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب اگر اس رؤیت عین اور سماع اذن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل وضو کی محاکات کر کے دکھا دینے کے بعد بھی ((فمن استطاع منکم أن یطیل غرتہ فلیفعل)) ان کا قول اور ان کی رائے ہے، تو یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرایک ایسا جھوٹ اور افتراء ہے جس کا ارتکاب ایک معمولی مسلمان بھی نہیں کر سکتا۔ چہ جائیکہ ایک صحابی رسول ایسے
Flag Counter