Maktaba Wahhabi

107 - 531
سے زیادہ اس کے حافظ اور اس کا صحیح ادراک رکھنے والے تھے۔ اگر یہ حدیث امام زہری نے نعوذ باللہ ام المومنین کی کردار کشی کے لیے گھڑی تھی اور مختلف روایتوں کو جوڑ توڑ کر اور خلط ملط کرکے افسانوی واقعہ کی شکل میں پیش کی تھی، تو پھر ان کے چاروں شیوخ کو کیا ہوگیا تھا کہ وہ ان کی اس جرأت بیانی پر خاموش تھے۔ یاد رہے کہ سعید بن مسیب کی وفات کے وقت امام زہری ۳۸ برس، عروہ بن زبیر کی وفات کے وقت بھی ۳۸ برس، علقمہ بن وقاص کی وفات کے وقت ۲۶ برس، اور عبید اللہ بن عبد اللہ کی وفات کے وقت ۴۳ برس کے تھے، اور دوسری حدیثوں کی طرح یہ حدیث بھی بیان کرتے پھر رہے تھے اور یہ اجلۂ تابعین ان پر کوئی نکیر نہیں کر رہے تھے؟!! درحقیقت اصلاحی صاحب کو مستشرقین اور منکرین حدیث کی طرح امام زہری سے نفرت تھی، اور اسی نفرت نے ان کو ان کے خلاف اس زہر پاشی پر ابھارا تھا۔ اگر خود ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کردہ واقعہ افک کا بروایت امام زہری صحیح بخاری میں ذکر کیا جانا ام المومنین کی کردارکشی اور شیعیت کی ترویج ہے، تو پھر قرآن پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کو کیا نام دیا جائے گا: ۱: ﴿وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْٓ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِ اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَ تَخْشَی النَّاسَ وَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰہُ﴾ (الاحزاب:۳۷) ’’یاد کرو وہ وقت جب تم اس شخص سے جس پر اللہ نے اور تم نے فضل و احسان کیا ہے کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں باقی رکھو اور اللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کردینے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، جبکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔‘‘ ۲: ﴿ ٰٓیاََیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاۃَ اَزْوَاجِکَ﴾ (التحریم:۱) ’’اے نبی! تم اس چیز کو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کردیا ہے اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہو کیا تم اپنی بیویوں کی خوشیاں چاہتے ہو۔‘‘ جس طرح یہ آیات مبارکہ بیمار ذہنوں کے فہم کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند اخلاقی اور عظمت پر دلالت کرتی ہیں ، اسی طرح واقعہ افک بھی ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکیزگی کردار اور ان کی عصمت و عفت پر دلالت کرتا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہی اس کو مسلمانوں کے فہم و خیال کے برعکس سراپا خیر و بھلائی قرار دے دیا: ﴿لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَکُمْ﴾ (النور:۱۱) ’’اس کو اپنے حق میں برا مت خیال کرو، بلکہ یہ تو تمہارے لیے خیر ہے۔‘‘
Flag Counter