Maktaba Wahhabi

23 - 358
3۔ اللہ تعالیٰ نے یہ واجب قراردیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مباح قراردیا ہے: 5۔ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے۔ اس مسئلہ میں ائمہ سلف کس قدر محتاط تھے، اس کا اندازہ اس بات سے فرمائیے کہ امام مالک رحمۃا للہ علیہ جب کوئی مسئلہ اپنے اجتہاد اور رائے کی بنیاد پر بیان کرتے تو ساتھ ہی یہ آیت کریمہ تلاوت فرما دیا کرتے تھے کہ: (إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ) ”ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں ہے۔“[1] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”جو شخص اپنے آپ کو منصب افتاء فائزکرے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ وجوہ قرآن،اسانید صحیحہ اور سنن کا عالم ہو“آپ سے مروی ایک دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ”فتویٰ دینا صرف اس آدمی کے لیے جائز ہے، جو کتاب و سنت کا عالم ہو۔“ اسی طرح امام شافعی رحمۃا للہ علیہ سے بھی مروی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں کسی شخص کے لیے اس وقت تک فتویٰ دینا حلال نہیں ہے جب تک وہ کتاب اللہ اور اس کے ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہہ، تاویل و تنزیل، مکی و مدنی سورتوں اور ان کے معانی و مطالب سے آگاہ نہ ہو۔حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ناسخ و منسوخ اور قرآن مجید ہی کی طرح حدیث سے متعلق دیگر امور سے آگاہ نہ ہو۔ اسے لغت و شعر کا بھی اس قدر علم ہو جو قرآن و سنت کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے،مختلف علاقوں کے اہل علم کے اختلاف کا بھی اسے علم ہو نیز اسے طبعی ملکہ بھی حاصل ہو،اگر اس میں یہ باتیں موجود ہوں تو وہ حلال و حرام کے بارے میں فتویٰ دے سکتا ہے اور اگر یہ موجود نہ ہوں تو اسے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔“[2] بہرحال اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں ایسی رائے کی بنیاد پر فتویٰ دینا حرام ہے جو کتاب و سنت کی نصوص کی مخالفت پر مبنی ہو یا نصوص نے جس رائے کو قبول کرنے کی شہادت نہ ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنَ اتَّبَعَ هَوَاهُ
Flag Counter