Maktaba Wahhabi

15 - 358
مقدمہ اسلام میں افتاء کی اہمیت لغوی معنی اسلام میں افتاء کی اہمیت پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہےکہ افتاء کے لغوی وشرعی معنی بیان کردیے جائیں:اَلْفَتَاوٰييا اَلْفَتَاويْ كا واحد فَتْوٰي ہے۔اس کا واحد(فُتْوٰي)اور(فُتْيَا)بھی آتا ہے۔فتویٰ سے مُراد ہے:(مَااَفْتٰي بِهٖ الْفَقِيْهُ)یعنی فتویٰ وہ ہے جو کسی فقیہ کی جانب سے دیا جائے گویا یہ(اَفْتَي الْعَالِمُ اِذَا بَيَنَ الْحُكْمَ)عالم نے فتویٰ دیا یا حکم بیان کیا“ سے اسم مشتق[1] ہے۔ یہ خالص عربی لفظ ہے جو بعض علماء لغت کے نزدیک(اَلْفُتُوَّةُ)سے ماخوذ ہے اور جس کے معنی ہیں: کرم، سخاوت، مروت اور زور آوری۔فتویٰ کو بھی فتویٰ اسی لیے کہتے ہیں کہ فتویٰ دینے والا مفتی اپنی فتوت یعنی سخاوت ومروت اور عالمانہ قوت سے کام لیتے ہوئے کسی دینی مسئلہ کا حل پیش کرتا ہے[2] علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ: (الفُتْيَا والفَتْوَى: الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال: اسْتَفْتَيْتَ فَأَفْتَانِي) ’’فتویٰ اور فتیا مشکل احکام کے بارے میں دئیے جانے والے جواب کو کہتے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سے فتویٰ دریافت کیا تو اس نے مجھے فتویٰ دیا۔“[3] ابن الاثیر نے اس کے معنی کسی مسئلے کے بارے میں رخصت یا جواز پیش کرنے کے بتائے ہیں۔[4]
Flag Counter