Maktaba Wahhabi

79 - 358
کیا تیل وضو کے لیے رکاوٹ ہے؟ سوال 17: میں نے بعض علماء سے سنا ہے کہ تیل ایسی رکاوٹ ہے جو بوقت وضو پانی جو جسم تک پہنچنے سے روک لیتا ہے۔ بعض اوقات کھانا پکاتے وقت تیل کے چند قطرے میرے بالوں اور اعضاء وضو پر گر پڑتے ہیں، تو کیا وضو یا غسل سے قبل ان اعضاء کا صابن سے دھونا ضروری ہے تاکہ پانی وہاں تک پہنچ سکے؟ اسی طرح میں بغرض علاج کبھی اپنے بالوں کو بھی تیل لگا لیتی ہوں، ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ براہ کرم آگاہ فرمائیں۔ جواب: اس سوال کا جواب دینے سے قبل میں چاہوں گا کہ اللہ کا مندرجہ ذیل ارشاد پیش کروں: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ)(المائدہ 5؍6) ’’ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو اور اپنے سروں کا مسح کر لیا کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں تک دھو لیا کرو۔‘‘ ان اعضاء کو دھونے اور ان کے مسح کرنے کا حکم اس بات کو لازم کرتا ہے کہ ہر اس چیز کا ازالہ ضروری ہے جو پانی کو اعضاء وضو تک پہنچنے سے روکتی ہو، کیونکہ اس کے باقی رہنے کی صورت میں اعضاء وضو دھل نہیں سکیں گے۔ بنا بریں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان جب اعضاء وضو پر تیل کا استعمال کرتا ہے تو یہ دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو تیل جامد ہو گا تو اس صورت میں وضو سے قبل اس کا ازالہ ضروری ہے کیونکہ اگر تیل اپنی موٹائی کی صورت میں ہی رہے گا تو وہ جسم تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہو گا اور اس طرح طہارت نہ ہو گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تیل سیال ہے اور اس میں موٹائی نہیں ہے، صرف اس کا اثر اعضاء وضو پر موجود ہے، تو ایسا تیل غیر مضر ہے۔ ایسی صورت میں تمام اعضاء وضو پر پانی گزارنا ضروری ہے۔ کیونکہ عادتا تیل پانی سے الگ رہتا ہے اس طرح بسا اوقات پانی اعضاء وضو تک نہیں پہنچ پاتا۔ لہذا ہم سائلہ سے یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر اعضاء وضو پر تیل وغیرہ جامد شکل میں ہو تو وضو سے قبل اس کا ازالہ ضروری ہے اور اگر تیل سیال شکل میں ہو تو صابن استعمال کئے بغیر وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بس اعضاء کو دھوتے وقت انہیں اچھی طرح مل لیا جائے تاکہ پانی پھسل کر نہ گزر جائے اور یوں اعضاء خشک نہ رہ جائیں۔ …شیخ محمد بن صالح عثیمین… وضو کرتے وقت چہرے اور ہاتھوں کو صابن سے دھونا سوال 18: وضو کرتے وقت چہرے اور ہاتھوں کو صابن سے دھونے کا کیا حکم ہے؟ جواب: وضو کرتے وقت چہرے اور ہاتھوں کو صابن سے لازما دھونا غیر مشروع ہے۔ یہ محض ایک تکلف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ، هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ)(رواہ مسلم فی کتاب العلم) ’’ تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے، تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ دہرائی۔ ہاں اگر ہاتھوں پر ایسی میل کچیل جمی ہو(یا ناگوار بدبو ہو)جو صابن وغیرہ استعمال کئے بغیر زائل نہ ہو سکے تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عام حالات میں اس کا استعمال محض تکلف اور بدعت ہو گا۔ لہذا اسے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ …شیخ محمد بن صالح عثیمین… بوسہ دینا(چومنا)ناقض وضو نہیں سوال 19: میرا خاوند گھر سے باہر جاتے وقت حتیٰ کہ نماز کے لیے مسجد جاتے وقت بھی ہمیشہ میرا بوسہ لے کر جاتا ہے۔ میں کبھی تو یہ سمجھتی ہوں کہ وہ ایسا شہوت سے کرتا ہے، اس کے وضو کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ جواب: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُ بَعْضَ أَزْوَاجِهِ، ثُمَّ يُصَلِّي وَلَا يَتَوَضَّأُ)(رواہ ابوداؤد والترمذی والنسائی و ابن ماجۃ) ’’ تحقیق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو بوسہ دیا پھر وضو نہ کیا اور نماز(پڑھنے)کے لیے تشریف لے گئے۔‘‘ اس حدیث میں عورت کو مس کرنے اور اس کا بوسہ لینے کی رخصت موجود ہے۔ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک بوسہ بہرحال ناقض وضو ہے، شہوت سے ہو یا شہوت کے بغیر۔ جبکہ بعض کے نزدیک شہوت کی حالت میں ناقض وضو ہے، بصورت دیگر نہیں۔ بعض کے نزدیک وہ کسی بھی حالت میں ناقض وضو نہیں ہے اور یہی قول راجح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب
Flag Counter