Maktaba Wahhabi

35 - 358
قبروں کی زیارت اور ان سے وسیلہ پکڑنے کا حکم سوال 1: قبروں کی زیارت، مزاروں سے وسیلہ لینے اور(چڑھاوے کے طور پر)وہاں مال اور دنبے وغیرہ لے جانے کا کیا حکم ہے؟ جیسا کہ(لوگ)سید البدوی(سوڈان میں)، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما(عراق میں)اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا(مصر)کی قبور(پر کرتے)ہیں۔ جواب سے مستفید فرمائیں، اللہ آپ کے علم میں برکت دے۔(آمین) جواب: زیارت قبور کی دو قسمیں ہیں۔ ان میں ایک اہل قبور پر رحم و شفقت کرنے، ان کے حق میں دعا کرنے، موت کو یاد رکھنے اور آخرت کی تیاری کے اعتبار سے جائز بھی ہے اور مطلوب بھی، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((زُورُوا الْقُبُورَ، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ)) ’’قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان کی زیارت کیا کرتے تھے اور اسی طرح آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی۔ یہ قسم مردوں کے لیے خاص ہے عورتوں کے لیے نہیں۔ جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو ان کے لیے قبروں کی زیارت جائز نہیں، بلکہ انہیں اس کام سے منع کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حکم ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ زیارت قبور کے وقت ان کی بے صبری اور آہ و فغاں کی وجہ سے فتنہ برپا ہونے اور ان کے اپنے اوپر فتنے کے غالب آنے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کا قبرستان تک جنازوں کے پیچھے جانا بھی ناجائز ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: (نُهينَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا)(صحیح البخاری) ’’ہمیں جنازوں کے پیچھے چلنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ(یعنی ساتھ جانا)ہم پر واجب بھی تو نہیں کیا گیا۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ ان(عورتوں)کی وجہ سے اور ان کے اپنے لیے فتنوں کے برپا ہونے اور
Flag Counter