Maktaba Wahhabi

177 - 358
جواب: یہ قول سراسر باطل ہے۔ مذکورہ بالا آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم میں سے کسی کی گود میں یتیم بچی ہو اور وہ اسے مہر مثل دینے سے ڈرتا ہو، تو وہ کسی اور عورت سے نکاح کرے کہ عورتوں کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی تنگی نہیں کی۔ یہ آیت دو تین یا چار عورتوں سے شادی کے مشروع ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اس طرح پاکدامنی، شرم و حیا اور عزت و آبرو کا تحفظ بہتر انداز میں ہو سکتا ہے۔ تعدد ازواج کثرت آبادی، اکثر خواتین کی عفت، ان پر احسان و انفاق کا ایک ذریعہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کا ایک مرد کے نصف، تیسرے یا چوتھے حصے پر حق رکھنا بغیر خاوند کے رہنے سے بہتر ہے۔ ہاں اس میں عدل و استطاعت شرط ہے۔ جو شخص عدم انصاف سے خائف ہو تو وہ ایک بیوی پر ہی اکتفاء کرے، اس کے ساتھ وہ لونڈی بھی رکھ سکتا ہے۔ اس کی تائید اور تاکید اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یوں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا آپ کے پاس نو بیویاں تھیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾(الاحزاب 33؍21) ’’ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ آپ نے امت کے لیے تصریح فرما دی کہ ان میں سے کوئی شخص بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ شادی نہیں کر سکتا، اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا چار یا ان سے کم عورتوں پر ہے، رہا اس سے زائد کو حبالہ عقد میں لانا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔ …شیخ ابن اب باز… تعدد ازواج سے متعلقہ آیات میں کوئی تعارض نہیں سوال 14: قرآن مجید میں تعدد ازواج کے ضمن میں ایک آیت یہ کہتی ہے: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ﴾(النساء 4؍3) ’’ اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔‘‘ جبکہ دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایا ہے: ﴿ وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾(النساء 4؍129) ’’ اور تم سے یہ تو کبھی نہیں ہو سکے گا کہ تم بیویوں کے درمیان پورا پورا انصاف کرو خواہ تم اس کی کتنی ہی خواہش اور کوشش کرو۔‘‘
Flag Counter