Maktaba Wahhabi

17 - 358
(الْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ) ”گناہ وہ ہے جو تمہارے جی میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند کرو کہ لوگوں کو اسکی اطلاع ہو۔“[1] مسند احمد کی ایک روایت میں الفاظ اس طرح آئے ہیں کہ: (اَلْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي الْقَلْبِ وَتَرَدَّدَ فِي الْصَّدْرِ وَإِنْ أَفْتَاك النَّاسُ وَأَفْتَوْك) ”گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور سینے میں اس کے بارے میں تردد پیدا ہو خواہ لوگ تمھیں اس کے جواز اور رخصت کا فتویٰ دیں۔“[2] شرعی معنی علماء واصول کے اقوال کے مطابق فتویٰ کے شرعی معنی ادلہ شرعیہ کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہے، چنانچہ علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: (الْمُفْتِي قَائِمٌ1 فِي الْأُمَّةِ مَقَامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ) ”مفتی،امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہے کیونکہ علماء انبیاء کے وارث ہیں جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں اور حضرات انبیاءعلیہ سلام نے انہیں دینار یا درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا ہے۔‘‘[3] مفتی تبلیغ احکام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے: (أَلاَ لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ) ”تم میں سے جو لوگ موجود ہیں ان لوگوں تک بھی یہ احکام پہنچادیں جو موجود نہیں ہیں۔‘‘[4] (بَلِّغوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً) ”میری طرف سے آگے پہنچاؤ خواہ وہ ایک آیت ہی ہو۔[5] (تَسْمَعُونَ وَيُسْمَعُ مِنْكُمْ وَيُسْمَعُ مِمَّنْ یَّسْمَعُ مِنْكُمْ) ”تم میری احادیث کو سنتے ہو،تم سے بھی انہیں سنا جائے گا اور ان سے بھی جنہوں نے تم سے سنا ہوگا۔“[6] یہ تمام احادیث اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ مفتی گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور قائم مقام کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ افتاء نویسی کی اہمیت: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”افتاء ایک عظیم الشان،جلیل القدر اور بہت ہی شرف وفضل کا حامل عمل ہے کیونکہ مفتی درحقیقت وارث انبیاء ہے اور فرض کفایہ کو سرانجام دیتا ہے لیکن یہ الگ بات کہ اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔‘‘[7] علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں کہ”فاسق مفتی نہیں بن سکتا کیونکہ فتویٰ امور دین میں سے ہے اور امور دین کے بارے میں فاسق کا قول ناقابل قبول ہے۔“[8] اسی طرح علامہ قرآنی بھی لکھا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”کسی عالم کو اس وقت تک فتویٰ نہیں دینا چاہیے جب تک لوگ اسے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو فتویٰ کا اہل نہ سمجھے۔“امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی شخص کی علماء کے نزدیک اہمیت ظاہر اور ثابت نہ ہو وہ منصب افتاء کا اپنے آپ کو اہل نہ سمجھے،چنانچہ مختلف مکاتب فکر کی کتب فقہ میں اس مفہوم کی بہت سی عبارتیں موجود ہیں اوران سے مقصود یہ ہے کہ لوگ فتویٰ دینے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔سلف صالح بھی اس سلسلے میں بے حد محتاط تھے،حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”سلف صالح حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہ فتویٰ میں جلد بازی کو ناپسند فرماتے تھے۔ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کاش اس کے بجائے کوئی دوسرا شخص فتویٰ دے دے،لیکن ان میں سے جب کوئی یہ محسوس فرماتا کہ اب اس کے لیے فتویٰ دینا فرض ہے تو وہ کتاب وسنت یا خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے قول کی روشنی میں اس کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے پورے پورے اجتہاد سے کام لے کرفتویٰ دیتا۔“[9] حضرت عبداللہ بن مبارک نے عبدالرحمان بن ابی یعلیٰ کا یہ قول بیان فرمایا ہے کہ:
Flag Counter