Maktaba Wahhabi

88 - 358
غسل کرنا ممکن ہوتا ہے اس کی مدت لمبی نہیں ہوتی وہ جب چاہے غسل کر سکتا ہے، اور اگر پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتا ہے اور تلاوت قرآن مجید بھی کر سکتا ہے، مگر حائضہ اور نفاس سے دوچار عورت کے لیے یہ ممکن نہیں، کیونکہ مسئلہ ان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حیض اور نفاس کی مدت کئی دنوں پر محیط ہوتی ہے، لہذا ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کو جائز قرار دیا گیا تاکہ وہ اسے بھول نہ جائیں اور تلاوت کلام کے ثواب سے محروم نہ رہیں۔ جب ان کے لیے کتاب اللہ کی تلاوت اور کتاب اللہ سے شرعی احکام کا سیکھنا جائز ہے تو قرآن و حدیث پر مبنی دعاؤں پر مشتمل کتابوں کا پڑھنا بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔ یہی رائے صاحب علم علماء رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال میں سے صحیح تر ہے۔ …شیخ ابن اب باز… مستحاضہ عورت کی نماز سوال 10: ایک خاتون کی عمر باون برس ہے، اسے ایک ماہ میں تین دن تک بڑی شدت سے خون آتا ہے، باقی ایام میں کم۔ کیا یہ خون، حیض کا خون سمجھا جائے گا؟ جبکہ عورت کی عمر پچاس سال سے زائد ہے۔ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اسے یہ خون کبھی تو ایک ماہ بعد آتا ہے اور کبھی دو یا تین ماہ بعد۔ کیا ایسی عورت دوران خون فرض نمازیں ادا کر سکتی ہے؟ نیز کیا وہ نفلی نماز اور تہجد ادا کر سکتی ہے؟ جواب: کبر سنی(بڑی عمر)اور بے قاعدگی کی بناء پر یہ خون دم فاسد تصور کیا جائے گا۔ جب عورت پچاس سال کی عمر کو پہنچ جائے یا اس کی ماہانہ عادت بے قاعدہ ہو جائے تو اس سے حیض اور حمل کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ خون کا بے قاعدہ ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ حیض کا خون نہیں ہے، لہذا اس دوران وہ نماز ادا کر سکتی ہے اور روزے رکھ سکتی ہے۔ یہ خون استحاضہ کے خون کا حکم رکھتا ہے جو کہ عورت کے لیے نماز اور روزے سے مانع نہیں ہے، اور نہ ہی اس دوران جماع کرنے میں خاوند کے لیے کوئی رکاوٹ ہے۔ علماء کا صحیح ترین قول یہی ہے۔ ایسی عورت پر ہر نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے۔ وہ روئی وغیرہ سے خون کو روکنے کی کوشش کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت سے فرمایا:
Flag Counter