Maktaba Wahhabi

39 - 358
اعتراض کرنے یا ان میں کمی بیشی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ ایسے امور شرعیہ عصر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک محکم شریعت کا حکم رکھتے ہیں۔ ان احکام میں وراثت کے حوالے سے مرد کو عورت پر ترجیح بھی شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصریح فرما دی ہے اور علماء امت کا اس پر اجماع بھی ہے، لہذا ایسے احکام پر مکمل اعتقاد اور ایمان کے ساتھ عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ جو شخص ایسے احکام کے برعکس کو موزوں تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایسے احکام کی مخالفت کو جائز قرار دینے والا بھی کفر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم پر معترض ہے۔ بنا بریں اولو الامر کی ذمہ داری ہے کہ معترض کے مسلمان ہونے کی صورت میں اسے توبہ کرنے کے لیے کہیں۔ اگر وہ توبہ سے انکار کرے تو ایسا شخص کفر و ارتداد کی بناء پر واجب القتل ہے کیونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ)(صحیح البخاری، مسند احمد 1؍2، 5؍231، سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن النسائی و سنن ابن ماجۃ) ’’ جو شخص مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔‘‘ ہم اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے فتنوں کی گمراہیوں اور شریعت مطہرہ کی مخالفت سے سلامتی کے لیے دعاگو ہیں۔ …شیخ ابن اب باز… عید میلاد کا حکم سوال 4: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا کیا حکم ہے؟ جواب: شریعت مطہرہ میں عید میلاد منانے کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ یہ محض بدعت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ)(متفق علیہ) ’’ جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرے تو وہ مردود ہے۔‘‘ (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْس عَلَيْهِ أمْرُنا؛ فَهْوَ رَدٌّ)(صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجۃ و مسند احمد 2؍146) یہ بات طے شدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں نہ تو خود یوم میلاد منایا اور نہ ہی
Flag Counter