Maktaba Wahhabi

40 - 358
اس کا حکم صادر فرمایا، اسی طرح خلفاء راشدین اور جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس کا اہتمام نہیں فرمایا، حالانکہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑھ کر اس سے محبت کرنے والے اور سب سے زیادہ شریعت اسلامیہ کی اتباع کرنے والے تھے۔ اس سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ عید میلاد کا تعلق شرع محمدی کے ساتھ ہرگز نہیں ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہوتا یا اس کا حکم فرمایا ہوتا یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ہم سب سے پہلے یہ سب کچھ کرتے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس امر کی دعوت دیتے کیونکہ ہم بحمداللہ سب لوگوں سے بڑھ کر اتباع سنت کے حریص اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی کی تعظیم بجا لانے والے ہیں۔ ہم اللہ رب العزت سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھے اور اپنی پاکیزہ شریعت کی مخالفت سے بچائے۔(آمین) …شیخ ابن اب باز… ہمیں بے نماز رشتے داروں سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟ سوال 5: میرے خاوند کا ایک بھائی ہے جو کبھی کبھار ہی نماز پڑھتا ہے، جب کہ میں اپنے خاوند کے خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہوں۔ جماعت کھڑی ہونے کے باوجود وہ لوگ اس کی مجلس میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں اسے سمجھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں، تو کیا اس صورت میں مجھے گناہ ہو گا؟ جواب: اگر وہ شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس سے قطع تعلق ضروری ہے۔ اس کے تائب ہونے تک نہ تو اسے سلام کہیں اور نہ ہی اس کے سلام کا جواب دیں۔ کیونکہ ترک نماز بڑا کفر ہے، اگرچہ وہ اس کے وجوب کا انکار نہ ہی کرے۔ یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ)(سنن ترمذی رقم 2623، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ رقم 1079، مسند احمد 5؍346، مستدرک الحاکم 1؍7، سنن الدارمی، السنن الکبریٰ للبیہقی 3؍366، مصنف ابن ابی شیبہ 11؍34 و صحیح ابن حبان، رقم 1454) ’’ ہمارے اور ان کفار کے درمیان نماز کا عہد ہے، پس جس نے اسے ترک کیا اس نے
Flag Counter