Maktaba Wahhabi

166 - 358
کے لوگوں کو شادی کے وقت عمر کے تفاوت سے متنفر کرتے ہیں تو یہ سب کچھ غلط ہے، انہیں ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ شادی کے بارے میں جو کچھ ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عورت نیک اور اپنے لیے موزوں خاوند کا انتخاب کرے اور اگر وہ عمر میں اس سے بڑا ہو تو بھی شادی کے لیے آمادہ ہو جانا چاہیے۔ یہی حکم مرد کا ہے کہ وہ نیک، پاکباز اور مناسب بیوی تلاش کرے اور ایسا رشتہ میسر آ جانے پر عمر کے فرق کو بہانہ بنا کر شادی سے گریز نہ کرے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ دونوں فریق جوان ہوں اور بچے پیدا کرنے کی عمر میں ہوں۔ مختصر یہ کہ عمر کو بہانہ نہیں بنانا چاہیے، اگر مرد یا عورت نیک ہوں تو عمر میں تفاوت کو عیب نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے۔(آمین) …شیخ ابن اب باز… شادی پہلے۔۔۔۔ سوال 4: ایک رواج سا بن گیا ہے کہ لڑکی یا اس کے باپ لڑکے والوں کی طرف سے منگنی کا پیغام اس عذر کی بناء پر رد کر دیتے ہیں کہ ابھی لڑکی کو ثانوی یا یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مکمل کرنی ہے یا اسے مزید چند سال زیر تعلیم رہنا ہے، اس طرح بعض لڑکیاں تیس برس یا اس سے بھی زائد عمر تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے، آپ انہیں کیا کہنا چاہیں گے؟ جواب: تمام نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ہماری نصیحت ہے کہ اسباب زواج میسر آنے پر فورا شادی کر لینی چاہیے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ، فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ)(متفق علیہ) ’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہو وہ شادی ضرور کرے، اس لیے کہ شادی باعث شرم و حیا اور باعث عصمت ہے، اور جو کوئی شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کہ وہ جوانی کے جذبات کو کنٹرول کرنے کا باعث ہیں۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے: (إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ
Flag Counter