Maktaba Wahhabi

127 - 358
(نُهينَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا)(رواہ ابوداؤد 3167) ’’ ہم عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے سے روک دیا گیا، اور اس کی تاکید نہیں کی گئی۔‘‘ جہاں تک نماز جنازہ پڑھنے کا تعلق ہے تو اس سے انہیں نہیں روکا گیا، جنازہ مسجد میں ہو، گھر میں ہو یا جنازہ گاہ میں، عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں جنازہ پڑھا کرتی تھیں۔‘‘ باقی رہا مسئلہ زیارت قبور کا تو یہ جنازے کے ساتھ جانے کی طرح مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ ان کا میت کے ساتھ قبرستان تک جانا اور قبروں کی زیارت کرنا باعث فتنہ ہے۔ واللہ اعلم۔ نیز اس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَا تَرَكْتُ بَعْدِى فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ)(رواہ الترمذی فی کتاب الادب) ’’ میں نے مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔‘‘ وبالله التوفيق …شیخ ابن اب باز… تعزیتی مجلس برپا کرنا سوال 3: میت کو دفن کرنے کے تین دن بعد تک تعزیتی(ماتمی)اجتماع کرنے اور قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟ جواب: میت کے گھر میں کھانے پینے یا قرآن خوانی کے لیے اکٹھا ہونا بدعت ہے۔ اسی طرح ورثاء کا میت کے لیے کسی دعائیہ مجلس کا انعقاد بھی بدعت ہے۔ میت کے گھر صرف تعزیت کرنے اور ان کے حق میں دعا کرنے اور اہل خانہ کو تسلی دینے کے لیے جانا چاہیے۔ لوگوں کا تعزیتی اجتماع(ماتم)منعقد کرنا، خاص طرح کی دعائیہ مجالس برپا کرنا، قرآن خوانی کے لیے محافل کا انعقاد کرنا، ایسی چیزوں کا شرع میں کوئی وجود نہیں، اگر ان جیسی چیزوں میں کوئی خیر ہوتی تو ہمارے سلف صالحین ایسا ضرور کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ جب جعفر بن ابی طالب، عبداللہ بن رواحہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم جنگ موتہ میں شہید ہوئے اور وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان حضرات کی موت کی خبر دی، ان کے لیے دعا فرمائی اور اپنی رضا کا اظہار فرمایا، لیکن نہ تو لوگوں کو جمع کیا، نہ کوئی دعوت ترتیب دی اور نہ کوئی
Flag Counter