Maktaba Wahhabi

238 - 358
ہے جبکہ تم قسم اٹھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔‘‘ اسی طرح اگر آپ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم اٹھائیں پھر دیکھیں کہ مصلحت اس میں نہیں بلکہ دوسرے کام میں ہے تو ایسی قسم کے توڑ دینے میں کوئی حرج نہیں، ہاں اس کا کفارہ ادا کرنا واجب ہو گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (إِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَائْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ)(متفق علیہ) ’’ جب تو قسم اٹھائے پھر اس کام کے مقابلے میں دوسرے کام کو بہتر سمجھے تو قسم کا کفارہ ادا کر کے بہتر کام کر لے۔‘‘ …شیخ ابن اب باز… عورت نے روزوں کی نذر مانی پھر اس پر عمل نہ کر سکی سوال 3: ایک عورت نے نذر مانی کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور بچہ صحیح سالم پیدا ہوا تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گی، اور واقعتا اس کا حمل پوری مدت تک سالم رہا اور اس نے صحیح سالم بچے کو جنم دیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ جواب: یہ بات تو شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ نذر ایک عبادت ہے اور اللہ رب العزت نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴾(الانسان: 76؍7) ’’ یہ لوگ نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی۔‘‘(یعنی جس کی برائی چاروں طرف پھیلنے والی ہو گی)۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللّٰهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللّٰهَ، فَلا يَعْصِهِ)(رواہ البخاری، کتاب الایمان باب 28 و احمد 6؍31 و ابوداؤد، کتاب الایمان، باب 19) ’’ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نافرمانی کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘ ایک شخص نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
Flag Counter