Maktaba Wahhabi

193 - 358
پھر جب کوئی انسان بچوں کے لیے کوئی عددی حد مقرر کر لے تو اس تعداد کا ایک ہی سال میں کسی وباء یا حادثے کی بناء پر خاتمہ بھی ممکن ہے، اس صورت میں تو آدمی اولاد اور نسل کے بغیر رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ میں خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی حکم موجود نہیں ہے ہاں ضرورت کے پیش نظر وقتی طور پر حمل کو روکنا جائز ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ رہا معاملہ دوران جماع بلا سبب عزل کرنے کا تو علماء کے صحیح قول کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يُنَزَّلُ)(صحیح البخاری، کتاب النکاح باب 97 و صحیح مسلم، کتاب الطلاق باب 26) ’’ ہم نزول قرآن کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے۔‘‘(یعنی عہد نبوی میں ہم یہ کام کرتے تھے)۔ اگر یہ فعل حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے منع فرما دیتے لیکن علماء کا کہنا ہے کہ خاوند آزاد عورت کی مرضی کے بغیر اس سے عزل نہیں کر سکتا کیونکہ بچوں میں عورت کا بھی حق ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ عزل کرنے سے اس کے لطف اندوزی والے حق میں کمی آ جاتی ہے جو کہ انزال کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔ اس بنا پر اس سے اجازت نہ لینا، اس کے لطف اندوزی کے حق کو نقصان پہنچانا ہے اس سے بچوں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، لہذا ہم نے اس کی اجازت کی شرط لگائی ہے۔ …شیخ ابن عثیمین… بے نماز خاوند کے ساتھ رہنا سوال 30: میرا خاوند دین کے بارے میں بے پروائی کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ نہ تو نماز پڑھتا ہے اور نہ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے بلکہ الٹا مجھے بھی ہر اچھے کام سے روکتا ہے، علاوہ ازیں وہ مجھ پر شک بھی کرنے لگا ہے، تمام کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھا رہتا ہے تاکہ وہ میری نگرانی کر سکے۔ دریں حالات مجھے کیا کرنا چاہیے؟ جواب: ایسے خاوند کے پاس نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ وہ نماز چھوڑنے کی بنا پر کافر ہو چکا ہے اور کافر آدمی کے ساتھ مسلمان عورت کا رہنا حلال نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے:
Flag Counter