Maktaba Wahhabi

187 - 358
عدالت کے سامنے برملا اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے جھوٹی گواہی دی تھی اور اب وہ اس سے رجوع کر رہے ہیں۔ اسی طرح جس ماں نے بیٹی کی طرف سے جھوٹے دستخط کئے تھے وہ اپنے اس فعل سے گناہ گار ہوئی ہے اس کے لیے واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے رک جائے۔ …شیخ ابن عثیمین… طلاق کی نیت سے نکاح کرنا سوال 25: ایک شخص حکومتی نمائندے کے طور پر ملک سے باہر جانا چاہتا ہے، وہ شرم گاہ کے تحفظ(بے حیائی سے بچنے)کی خاطر بیرون ملک معینہ مدت تک شادی کرنا چاہتا ہے، اس عرصے کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا، لیکن وہ عورت کو اس کے متعلق آگاہ نہیں کرتا کہ وہ اسے طلاق دے گا۔ اس کے اس فعل کا کیا حکم ہے؟ جواب: طلاق کی نیت سے نکاح کرنا دو حالتوں سے خالی نہیں، یا تو وہ نکاح کے وقت شرط لگائے کہ وہ لڑکی سے ایک ماہ، ایک سال یا تعلیم مکمل ہونے تک شادی کرے گا۔ یہ نکاح متعہ ہے اور حرام ہے۔ یا پھر بوقت نکاح اس بات کو مخفی رکھے اور بطور نکاح کی شرط کے اس کا تذکرہ نہ کرے تو حنابلہ کے مشہور مذہب کی رو سے یہ بھی حرام ہے اور نکاح فاسد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مخفی بھی مشروط کی طرح ہے۔‘‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى)(البخاری حدیث 1) ’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی۔‘‘ نیز اس لیے بھی کہ اگر کوئی شخص مطلقہ ثلاثہ سے اس بنا پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی خاطر طلاق دے دے گا(یعنی حلالہ کرے)تو یہ نکاح فاسد ہو گا اگرچہ یہ نکاح بغیر کسی شرط کے تھا، کیوں کہ نیت والا مشروط کی طرح ہے۔ جس طرح حلالہ کی نیت نکاح کو فسخ کر دیتی ہے اس طرح متعہ کی نیت بھی نکاح کو فسخ کر دیتی ہے یہ حنابلہ کا قول ہے۔ اس مسئلے میں اہل علم کا دوسرا قول یہ ہے کہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے، مثلا ان اجنبی مسافروں کے لیے جو حصول تعلیم وغیرہ کے لیے باہر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نکاح اس لیے جائز ہے کہ اس نے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی۔ اس نکاح اور نکاح متعہ میں فرق یہ ہے
Flag Counter