Maktaba Wahhabi

331 - 358
حرام تحفہ سوال 24: میں قبل ازیں مرد و زن پر مشتمل مخلوط معاشرے میں رہتی تھی، اس دوران ایک شخص نے شیطانی خواہش کی تکمیل کے لیے مجھے سونے کا ایک قیمتی ہار بطور تحفہ پیش کیا۔ الحمدللہ کہ میں اب اس معاشرے سے نکل آئی ہوں اور حق کا راستہ پہچان لیا ہے اور اپنے کئے پر نادم ہوں۔ کیا اب اس تحفے پر میرا کوئی حق ہے؟ اسے زیب تن کرنا میرے لیے جائز ہے، یا اسے صدقہ کر دوں یا آخر کیا کروں؟ یاد رہے کہ میں اب اس معاشرے کو ناپسند کرتی ہوں، لہذا اسے واپس کرنا بھی ناممکن ہے؟ جواب: عزت و ناموس کی اس سلامتی پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں، مالک کو تحفہ واپس نہ کریں بلکہ اسے صدقہ کر دیں۔ ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔ عورت کی آواز کا پردہ ہے سوال 25: ٹیلی فون یا دیگر ذرائع رابطہ پر اجنبی شخص کے لیے کسی عورت کی آواز سننے کا شرعا کیا حکم ہے؟ جواب: صحیح قول کی رو سے اجنبی(غیر محرم)لوگوں کے لیے عورت کی آواز پردہ ہے۔ اس لیے دوران نماز اگر امام کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو عورتیں مردوں کی طرح سبحان اللہ نہیں کہتیں بلکہ تالی بجاتی ہیں، عورت اذان بھی نہیں کہہ سکتی کہ اس میں آواز بلند کرنا پڑتی ہے، اسی طرح وہ دوران احرام تلبیہ بھی اتنی آواز میں کہہ سکتی ہے کہ اس کے ساتھ والی سن لے۔ لیکن بعض علماء نے عورت کے لیے بقدر ضرورت مردوں سے گفتگو کو جائز قرار دیا ہے، مثلا کسی سوال کا جواب دینا، بشرطیکہ ماحول شک سے پاک ہو اور شہوت بھڑکنے کا خطرہ بھی نہ ہو۔ اس کی دلیل اللہ کا یہ ارشاد ہے: (فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ)(الاحزاب 33؍32) ’’ پس تم نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی خیال کرے۔‘‘ کیونکہ جب کوئی خاتون ملائمت سے گفتگو کرے یا میاں بیوی کے مابین ہونے والی گفتگو کا سا انداز اپنائے تو اس کے دل میں شہوانی خیالات ابھرتے ہیں۔ لہذا اضطراری حالت میں بقدر ضرورت
Flag Counter