Maktaba Wahhabi

183 - 358
گا تو واجب القتل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ)(البخاری، کتاب الجھاد باب 149) ’’ جو شخص اپنا دین(اسلام)تبدیل کرے اسے قتل کر دو۔‘‘ …شیخ ابن جبرین… مسلمان عورت کا عیسائی سے نکاح کرنا سوال 22: مسلمان عورت کا کسی عیسائی سے نکاح کرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟ اور اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہے؟ نیز اس نکاح کے مختار(نکاح خواں)کے متعلق کیا حکم ہے کہ جو اس شادی کی تکمیل کا سبب بنا اور اس بیوی کا کیا حکم ہے کہ جب اگر وہ اس نکاح کے بطلان سے آگاہ بھی ہو؟ کیا عورت پر شرعی حد قائم کی جائے گی یا نہیں؟ اگر نکاح کے بعد خاوند مسلمان ہو جائے تو پہلے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟ اور پھر نیا نکاح کیسے ہو گا؟ جواب: مسلمان عورت کا عیسائی یا کسی بھی کافر مرد سے نکاح کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ)(البقرہ 2؍221) ’’ اور مشرکوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘ نیز فرمایا: (لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ)(الممتحنہ 60؍10) ’’ وہ(مومن)عورتیں ان کافروں کے لیے حلال نہیں، اور نہ وہ(کافر)ان مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘ اگر ایسا نکاح ہو جائے تو اس کا فسخ فورا واجب ہے، اگر عورت کو اس نکاح اور اس کے شرعی حکم کا علم تھا تو وہ واجب تعزیر ہے اسی طرح ولی، گواہ اور نکاح خواں(نکاح رجسٹرار)اس نکاح کے شرعی حکم سے آگاہ ہونے کی صورت میں واجب تعزیر ہوں گے۔ اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد اسلام میں ماں کے تابع ہو گی، اگر نکاح کے بعد خاوند مسلمان ہو جائے اور اس کے حسن اسلام کا یقین ہو جائے تو نکاح دوبارہ ہو گا۔ حسن اسلام کی شرط اس لیے ہے کہ کہیں وہ اسلام کو نکاح کے لیے بطور حیلہ کے استعمال نہ کرے اور اگر وہ اس کے بعد مرتد ہو جائے تو واجب القتل
Flag Counter