الدلیل والمصلحۃ۔‘‘[1]
’’تدوین سے مراد فقہی احکام کو اس طرح کی منا سب صورت میں ڈھال کر لکھناہے جس سے وہ اچھی طرح واضح ہو جائیں اور ان احکام کے دلائل اور نصوص بھی ساتھ ہی موجود ہوں ۔تدوین میں فقہاء کے صرف ایک ہی قول کو لکھنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا(بلکہ تقریباً جمیع اقوال کا احاطہ مقصود ہوتاہے)اور ا سی طرح تدوین میں فقہی احکام کو کسی خاص ترقیم یا ت سل سل کے ساتھ بھی نقل نہیں کیا جاتاجبکہ تقنین سے مراد فقہی احکام کو ایسی صورت میں ڈھالناہے جس میں ترقیم‘ تسلسل‘ اختصار اور نصوص شریعہ کا نچوڑ ہو۔یہ احکام عموماً ایسی صورت میں ڈھالے جاتے ہیں کہ معاصرنظاموں کا اسلوب ان پر غالب ہو۔ان میں اختصار اور کسی محقق کے لیے مطلوب فقہی نص تک جلد پہنچنے کے پیش نظردلائل اور نصوص شرعیہ کا ذکر نہ ہو۔ا سی طرح تقنین میں صرف دلیل اور مصلحت کی بنیاد پر راجح قرار پانے والے قول ہی کو بیان کیا جاتا ہے۔‘‘
یہ واضح رہے کہ اس لغوی و اصطلاحی فرق کے باوجود بعض معاصرعلماء تدوین کو تقنین کے معنی میں بھی استعمال کر لیتے ہیں ۔ أ ستاذ صبحی المحمصانی فرماتے ہیں :
’’ التدوین کلمۃ سأستعملھا بمعنی صیاغۃ الأحکام الشرعیۃ فی عبارات إلزامیۃ لأجل تنفیذھا والعمل بموجبھا وقد ا ستعمل بعض الزملاء فی الأقطار العربیۃ الأخری کلمۃ التقنین بدلاً منھا ولکن فضلت علیھا الکلمۃ العربیۃ التدوین من فعل: دون تدوینا مدونۃ لأن التقنین مشتق من القانون وھو کلمۃ دخیلۃ کما تعلمون أخذھا العرب عن ا سریانیۃ من کلمۃ کانون الیونانیۃ۔‘‘[2]
’’تدوین کے لفظ کو میں احکام شرعیہ کو حکمی عبارتوں میں ڈھالنے کے لیے استعمال کروں گاتاکہ ان احکام کو نافذ کیا جائے اور ان کے مطابق عمل ہو۔دو سرے عربی ممالک میں ہمارے بعض ساتھیوں نے تدوین کی جگہ تقنین کے لفظ کو استعمال کیا ہے لیکن میں نے تدوین کے لفظ کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ یہ عربی لفظ ہے اور اس سے فعل’دون تدوینا مدونۃ‘استعمال ہوتا ہے۔ تقنین کا لفظ قانون سے مشتق ہے اور یہ عربی زبان میں باہر سے داخل کیاگیا لفظ ہے جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے۔اہل عرب نے یہ لفظ سریانی زبان کے ر ستے یونانی لفظ ’کانون‘ سے لیا ہے۔‘‘
بعض علماء تدوین اور تقنین میں فرق کرتے ہوئے تدوین کو جائز اور تقنین کو ایک ناجائز فعل گردانتے ہیں ۔جناب مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’جہاں تک کتاب و سنت کی بجائے جدید انداز پر دفعہ وار د ستور و قانون کی شکل میں شریعت کی تشکیل نو کا مسئلہ ہے تو تقنین شریعت کی یہ صورت کوئی پختہ اسلامی تصور نہیں ہے بلکہ یہ تصور مغرب سے متاثر جدید ذہن کی پیداوار ہے جو فران س کی تقلید میں مسلمانوں میں درآمد ہوا ہے۔ورنہ صحیح تصور یہ ہے کہ شریعت(کتاب اللہ)اور اس کی تعبیر (سنت و حدیث)مکمل ہو کر بہت پہلے أئمہ سلف ا سے مدون کر چکے ہیں ۔البتہ جہاں تک اجتہاد کا تعلق ہے تو پہلے فقہاء کے اجتہادا ت اگرچہ فقہ و فتاوی کی ضخیم کتابوں کی صورت میں مدون موجود ہیں ‘ تاہم جدید طرز پر ان کی اجتماعی تدوین نو مقصود ہوتو یہ کام غلط نہیں بلکہ جدید مو سوعات فقھیۃ کی شکل میں اپنی افادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ بشرطیکہ یہ کام صاحب تقوی اور علم و بصیرت کے حامل لوگوں کے ہاتھوں ہی انجام پائے۔لیکن اس وقت اجتماعی اجتہاد کے حوالے سے جس نکتہ پر ہم گفتگو کر رہے ہیں ‘ وہ فقہ و اجتہاد کی تدوین نو کا مسئلہ نہیں بلکہ تدوین کے مغالطہ میں تقنین (شریعت کی قانون سازی)کی ضرورت کا ہے‘ جسے دراصل جدید عربی ذو معنی لفظ’ تشریع‘ سے پیش کیا جا رہا ہے۔لہذا اس موضوع پر گفتگو کے وقت تدوین و تقنین کا فرق ملحوظ رہنا چاہیے یعنی تدوین تو فقہ و اجتہاد کو ترتیب دینے کا نام ہے جس کی تقلید بالخصوص علماء و قضاۃ پر لازمی نہیں ہوتی‘ جبکہ تقنین اپنے الفاظ میں کسی
|