"حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے چند صحابہ کرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے عام طور پر ساتھ لگے رہتے تھے۔ اور سفر و حضر میں آپ کی حفاظت کرتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو رخصت کردیا کہ اب کسی پہرہ اور حفاظت کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کام خود اپنے ذمہ لے لیا ہے۔"[1]
"ایک حدیث میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے تبلیغ و رسالت کے احکام ملے تو میرے دل میں اس کی بڑی ہیبت تھی، کہ ہر طرف سے لوگ میری تکذیب اور مخالفت کریں گے، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو سکون و اطمینان حاصل ہوگیا۔ (تفسیر کبیر)" [2]
سیاق و سباق کے تناظر میں اس آیت مبارکہ کا مفہوم و اہمیت
" یہود و نصاریٰ کی خرابیاں بیان فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ وحی میں " بَلِّــغْ " کے ساتھ تاکید فرمائی جاتی ہے کہ اگر آپ کسی کے خوف و اندیشہ سے تبلیغ دین میں کچھ کوتاہی کریں گے تو عہد رسالت کے ذمہ دار ہوں گے۔ چونکہ عرب کی مشرک قوموں سے تو مکہ ہی سے بسبب توحید ظاہر کرنے کے مخالفت سخت ہوگئی تھی وہ شب و روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کی ایذا اور تکلیف دہی میں سرگرم تھے۔ اس لئے جب ان کے ظلموں کی برداشت نہ ہوسکی مکہ چھوڑ کر مدینہ میں رہنا اختیار کیا۔ یہاں یہود و نصاریٰ کے گروہ زور آور اور سرکش تھے۔ یہ بھی امر حق کے ظاہر کرنے سے جو ان کی طبائع کے خلاف اور رسمی مذہب کے برخلاف تھا سخت دشمن ہوگئے۔ رہے بیچارے انصار اور چند غریب اور مفلس مہاجرین سو وہ بظاہر تمام قبائلِ عرب اور یہود و نصاریٰ کے دفع ظلم و ستم پر پورے قادر نہ تھے۔ ایسی صورت میں انسانی طبیعت کا مقتضٰی ہے کہ ذرا لب بند کرے مگر چونکہ آپ اس کے رسول برحق اور نبی موعود تھے جن کے آنے پر تمام قوموں کی بھلائی اور نجات منحصر رکھی گئی تھی اسی لئے خدا نے تاکید سے بلغ ما انزل فرمایا اور لوگوں کے خوف اور دہشت کی بابت آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذمہ لیا کہ واللّٰہ یعصمک من الناس اور ایسی حالت میں جس کا عشر عشیر حضرت مسیح علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام پر نہ تھی تب بھی وہ کفار کی گزند سے محفوظ نہ رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محفوظ رہنا خصوصاً ایسے ملک میں کہ جہاں کوئی حاکم بھی ظالموں کے لئے داروگیر کرنے والا نہیں ایک بڑی دلیل منجانب اللہ ہونے کی ہے مگر کافروں کی آنکھوں پر ازلی پردہ ہے اور اس سے دیکھ نہیں سکتے۔ ان اللّٰہ لا یہدی القوم الکافرین کے یہی معنی ہیں ۔ اس کے بعد مانزل الیک من ربک کی قسم خاص کو جو اس وقت ضروری التبلیغ تھی یہود و نصاریٰ کے گمان فاسد کو ایسے طور پر غلط کرنے کے لئے کہ جس کو وہ بھی تسلیم کرلیں یہ ارشاد ہوا قل یا اھل
|