ہیں پھر اگر کوئی فوت ہو جائے تو راہ داری کے طور پر رسماً چند سورتیں پڑھوا لیتے ہیں یا سال میں ایک دو بار حفاظ کو زحمت دیتے ہیں کہ وہ ان کے گھر آئیں اور تبرک کے لیے قرآنِ مجید کی تلاوت کر جائیں پھر جیسی ذمہ داری سے حفاظِ تلاوت کلامِ پاک کرتے ہیں وہ اربابِ دانش سے مخفی نہیں ہے۔ (حالانکہ موخر الذکر دونوں اعمال اسوہئ رسول اور عمل صحابہ سے ثابت نہیں )
قرآنِ مجید کا ادب و احترام یقیناً ضروری ہے، ہر مسلمان اسے اپنا فرضِ اوّلین سمجھتا ہے لیکن صرف قرآن کو اس کے ظاہری آداب و احترام تک محدود رکھنا ایسے ہی ہے جیسے عینک جیب میں ہو اور اس سے استفادہ نہ کیا جائے فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنِ حکیم کا احترام ضروری ہے جبکہ عینک کو توڑ دیا جائے یا نیچے پھینک دیا جائے تو کوئی بے ادبی لازم نہیں آئے گی جبکہ قرآنِ مجید کا ادبِ اوّلین فریضہ ہے کیونکہ یہ شعائر اسلام میں سے ہے۔
نزولِ قرآنِ حکیم کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کو پڑھ کر اپنی زندگیوں کو اس کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں نہ کہ صرف اس کو ادب و احترام تک ہی محدود (Limited) کر دیں ۔
اﷲتعالیٰ اپنی کتاب مبین کے متعلق فرماتے ہیں :
﴿ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ ﴾ [1]
(بلاشبہ یہ قرآں سب سے زیادہ سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔)
جب جنوں کی ایک جماعت نے قرآنِ مجید سنا تو انھوں نے کہا:
﴿ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ ﴾ [2]
|