صدا میں
آج نمازی حضرات کی اکثریت(Majority) ان اوصاف حمیدہ سے عاری اور تہی دامن ہے وہی جاہلیت کی ذات پات، اونچ نیچ اور امتیاز حسب و نسب وغیرہ سب ان میں موجود ہیں ۔
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
تقریبا ہرایک دوسرے کو بنظر استحقار و تحقیر دیکھتا ہے اس کے عیوب اور خامیاں تحقیراً لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے کسی نے اسی لیے کہا ہے :
تجھ میں جب تک ہے ذوق خود بینی تیرا شوق نماز بےتو قیر
بھول جا اپنے آپ کو پہلے زیب دے گی زبان کو پھر تکبیر
حج کے مقاصد اللہ اور رسول کی اطاعت کا ملہ اوراسلام کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کا جذبہ پیدا کرنا پیداکرنا ہے
ہر سال لوگ لاکھوں کی تعداد میں فریضہ حج ادا کرتے ہیں مگر حج کی روح اور مقصدیت کو پانے والے تھوڑے ہی افراد ہوتے ہیں اسی لئے ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حج میں شریک لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر فرمایا تھا کہ لوگ تو بہت ہیں مگر ان میں سے معدودے چند اشخاص ہی حج کی روح کو حاصل کرسکیں گے ۔
حج کا ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں جذبہ ایثار و قربانی اس طرح پیدا کیا جائے کہ بوقت ضرورت وہ اسلام کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیں اور اس سلسلہ میں ذرا تامل سے کام نہ لیں بلکہ برضا و رغبت وہ ایسا کر گزریں ۔
|