Maktaba Wahhabi

132 - 343
ہوتے ہیں کہ دوسرے کسی کے لئے اس کو سمجھنا اور جاننا ہی ممکن نہیں ہوتا۔ جیسا کہ بعض اسلاف کرام سے مروی و منقول ہے کہ اگر ہمارے اس سکون و اطمینان کا پتہ دنیاوی بادشاہوں کو لگ جائے تو وہ ہمارے خلاف تلواریں سونت لیں " لجلدونا بالسیوف " سو سکون و اطمینان کی اس دولت سے یہ اللہ والے اگرچہ اس دنیا میں بھی سرشار ہوتے ہیں لیکن اس کا کامل ظہور آخرت کے اس جہاں میں اس وقت ہوگا جب کہ ان کو ابدی کامیابی اور دائمی سعادت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا اور جہاں ان کو (لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَتَتَلَقّٰهُمُ الْمَلِٰٕكَةُ) کے روح پرور اور کیف آور مژدوں سے سرفرازی نصیب ہوگی۔ (جعلنا اللہ منہم بمحض منہ وکرمہ وھو ارحم الراحمین) سو ایمان و یقین کی دولت جو کہ ولایت خداوندی کی اولین اساس اور اصل بنیاد ہے پوری کائنات کی سب سے بڑی دولت ہے۔ بس اسی کے حصول کو اولین مقصد بنانا چاہیے۔ وباللہ التوفیق۔" "تقدیر پر ان کا ایمان انہیں (ان اللہ کے اولیاء کو) کفار جیسے غم سے بچاتا ہے کہ اللہ کی تقدیر میں لکھی ہوئی کوئی مصیبت ہماری کسی تدبیر سے نہ ٹل سکتی تھی، نہ ٹل سکتی ہے، پھر غم سے کیا حاصل، فرمایا : (لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰكُمْ) [ الحدید : ٢٣ ] ’’ تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمہیں عطا کرے۔‘‘ [1] چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو سوزن تدبیر گر ساری عمر سیتی رہے "سیدنا عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ کے بندوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو نبی ہوں گے نہ شہید، مگر قیامت کے روز اللہ کے ہاں ( بلند) مراتب و منازل کی وجہ سے انبیاء و شہداء بھی ان پر رشک کریں گے۔‘‘ صحابہ نے کہا، اے اللہ کے رسول ! ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا : ’’ یہ وہ لوگ ہیں جو آپس
Flag Counter