وَیَوْمَ قُرَیْشٍ اِذَا اَتَوْنَا بِجَمْعِھِمْ وَطِءْنَا الْعَدُوَّ وَطْاَۃَ الْمُتَثَاقِلِ
وَفِیْ اُحُدٍ یَّوْمٌ لَّھُمْ کَانَ مُخْزِیًا نُطَاعِنُھُمْ بِِالسَّمْھَرِیِّ الذَّوَابِلِ
وَیَوْمَ ثَقِیْفٍ اِذْ اَتَیْنَا دِیَارَھُمْ کَتَاءِبَ نَمْشِیْ حَوْلَھَا بِالْمَنَاصِلِ
فَفَرُّوْا وَشَدَّ اللّٰہُ رُکْنَ نَبِیِّہٖ بِکُلِّ فَتًی حَامِی الْحَقِیْقَۃِ بَاسِلٍ
(جب جنگ اپنا زور پکڑ تی ہے تو ہم میں ایسے باعمر اور نوجوان لوگ ہوتے ہیں جن کی تلواروں کے پرتلے لمبے ہیں ۔ یعنی وہ جنگ کے لیے پوری طرح تیار ہوتے ہیں ۔ ہم نے پیارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کی اور انہیں اپنے پاس ٹھہرایا۔ ہمارے پہلے لوگوں نے حق کے قائل جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی قبیلہ کے ساتھ جنگ کرتے تھے تو ہم اپنی تلواروں اور نیزوں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ لڑتے تھے۔ قریش کے دن یعنی غزوہ بدر میں جب ہم نے دشمن کے لشکرپر حملہ کیا تو ان کو اپنے پاؤں کے نیچے کچل ڈالا۔ احد کا دن بھی ان کی رسوائی کا سبب تھا۔ جب ہم انہیں تیز اور مضبوط نیزوں سے بلاک کر رہے تھے۔ ثقیف کے دن ہم نے ان کے علاقے پر حملہ کیا تو اس وقت ہم عظیم لشکر کی صورت میں تھے۔ اور ہاتھ میں تلواریں لے کر ان کے علاقے کے ارد گرد چکر لگا رہے تھے۔ دشمن اس دن پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے اور اﷲ تعالیٰ نے بہادر اور جرات مند جوانوں کے ذریعے اپنے پیارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قوت عطا فرمائی۔ [1]
ثناء خوانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جناب حسان بن ثابت رَضِیَ اللّٰهُ عَنہ نے غزوہ حنین میں انصار کی تعریف بیان کرتے ہوئے ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کی فدا کاری کا ذکر کیا ہے:
نَصَرُوْا نَبِیَّھُمْ وَشَدُّوْا اِزْرَہٗ ِبحُنَیْنٍ یَّوْم تَوَاکَلَ الْأَبْطَالُ
(غزوہ حنین میں انصار نے اپنے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور ان کو بھر پور سہارا دیا جبکہ اس دن بڑے بڑے شہ سوار اور بہادر بھی کمزوری کا شکار ہوگئے تھے۔ [2]
ثناء خوانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسان بن ثابت رَضِیَ اللّٰهُ عَنہ نے کہا:
ِﷲِ دَرُّ عِصَابَۃٍ لَّاقَیْتَھُمْ یَا ابْنَ الْحَقِیْقِ وَاَنْتَ یَا ابْنَ الْاَشْرَفِ
یَسْرُوْنَ بِالْبِیْضِ الرِّقَاقِ اِلَیْکُمْ مَرَحاً کَاُسْدٍ فِیْ عَرِیْنٍ مُّغْرِفٍ
|