روانہ ہو گا۔ ماں کے لیے یہ خبر نہایت پریشان کن تھی .... میرا بیٹا مجھ سے جدا ہو جائے گا۔ یہ جدائی میرے لیے ناممکن ہے، اور پھر اچانک اس نے ایک فیصلہ کیا، اور اس پر مطمئن ہو گئی۔ رات کو جب اس کا لاڈلا بیٹا سو گیا تو اس نے اس کا پاسپورٹ اور ٹکٹ چھپا دیے۔
اگلی صبح بیٹا اٹھا، اس نے سامان پیک کیا، کپڑے تبدیل کیے، ائیرپورٹ جانے کے لیے تیار ہوا۔ مگر جب الماری سے اپنا پاسپورٹ اور ٹکٹ لینے کے لیے گیا، تو دونوں چیزیں غائب تھیں ۔ اپنی ماں سے پوچھا: کیا پاسپورٹ اور ٹکٹ آپ کے پاس؟ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ بیٹے نے پوچھا: ’’آخر آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟‘‘
’’کیونکہ میں تمہاری جدائی برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘ ماں نے جواب دیا۔ بیٹا بولا: ’’مگر اس میں میرا مسقبل ہے۔‘‘ اب ماں بیٹے میں بحث شروع ہو گئی، پھر تکرار ہونے لگی۔ لڑائی جھگڑے تک نوبت آ گئی۔ ماں نے اپنا آخری فیصلہ سنایا کہ تم جو جی چاہے کر لو، پاسپورٹ نہیں ملے گا۔
بیٹا اپنی ماں سے لڑ جھگڑ کر غصے کے عالم میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ نیند کی آغوش میں تھا۔ ادھر ماں کچن میں چلی گئی۔ اس نے سوچا کہ بیٹا ناراض ہے، چلو اس کی پسند کا کھانا بناتی ہوں ۔ اسی دوران اس نے ریڈیو آن کیا۔تھوڑی دیر کے بعد خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں ۔ نیوز کاسٹر کی غم سے بھری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی کہ نہایت رنج و غم سے یہ خبر دی جاتی ہے کہ بغداد جانے والا ہوائی جہاز گر کر تباہ ہو گیا ہے، جہاز کے تمام مسافر جاں بحق ہو گئے ہیں ۔
ماں خوشی اور رنج و غم کی ملی جلی کیفیت میں تھی۔ اس نے شکر ادا کیا کہ اس کا بیٹا بچ گیا ہے۔ اگر وہ ضد نہ کرتی تو اس کا بیٹا بھی انہی مسافروں میں شامل ہوتا اور پھر کیا ہوتا؟ اس سے آگے سوچنا بھی اس کے لیے محال تھا۔ وہ بھاگتے ہوئے اپنے بیٹے کے کمرے کی طرف گئی کہ اس کو یہ خبر سنا سکے۔
اس نے دروازہ کھولا .... مگر یہ کیا .... اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی .... اس کا
|