رات دن تگ و دو کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ جبکہ یہ یقینی ہے کہ آخرت ہی کے لیے کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ کے نزدیک قابل قبول اور دائمی ہیں ۔
مرشد عالم کی بھی نہ جانے کتنی تمنائیں تھیں ، نہ جانے کتنے حسین خواب اس کے ذہن و دماغ میں مستقبل کے لیے امنڈ رہے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ لہٰذا ہم سب پر واجب ہے کہ ہم آخرت سدھارنے کے لیے ۲۴ گھنٹے تیار رہیں کہ دنیا کے سیکڑوں حادثات سے اگر کوئی بچ بھی رہے تو آخر کار اسے ایک نہ ایک دن موت کا مزہ تو چکھنا ہی ہے، ارشاد باری ہے:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ﴾ (آل عمران: ۱۸۵)
’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
٭٭٭
|