یعنی جس باپ نے تجھے اس قدر ناز اور نخرے سے پالا پوسا، تیری نزاکتوں کا اتنا زیادہ خیال رکھا، تجھے خوش رکھنے کے لیے اتنی ساری سہولیات مہیا کیں ، پھر بھی تونے اس کے ان عظیم احسانات کا بدلہ یہ دیا کہ اس کا راز افشا کرکے میرے ہاتھوں اسے قتل کرا دیا، اس کی سلطنت کو تاخت و تاراج کرایا۔ جب تونے اپنے باپ کے ساتھ اس قدر بے وفائی کا ثبوت دیا تو مجھے تجھ جیسی بے وفا لڑکی سے کیا امید رکھنی چاہیے؟ اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے گی؟
چنانچہ شاہ پور نے اسی وقت حکم دیا کہ اس بے وفا لڑکی کے بال کی چوٹیاں گھوڑے سے باندھ دی جائیں اور گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی، گھوڑے سے اس کی چوٹیاں باندھ دی گئیں ۔ گھوڑا بدکا اور زور سے اچھلتے کودتے ہوئے بھاگنے لگا، اس کی ٹاپوں سے پچھاڑیں کھاتے ہوئے نضیرہ کا جسم چور چور ہو گیا۔
عرب مورخین نے اس واقعے کا تذکرہ کیا ہے اور عرب شعرا نے بھی اس واقعے کو نظم کیا ہے۔[1]
یہ واقعہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی ان لڑکیوں کے لیے درس عبرت ہے جو جذبات کی طغیانیوں میں ڈوب کر بلا سوچے سمجھے والدین کے جذبات کو مجروح کرکے کوئی غلط قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتیں اور کسی کے بہکاوے میں آکر راہِ راست سے بھٹک جاتی ہیں ۔ نتیجتاً ان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے اور پھر وہ نہ تو سسرال والوں کی نگاہ میں اچھی سمجھی جاتی ہیں اور نہ میکے والے انہیں قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں ۔ ابھی کچھ ہی سال قبل ایک معروف روزنامے میں یہ خبر شائع ہوئی تھی:
’’لو میرج کرنے والی لڑکی کو دارالامان سے عدالت لے جاتے ہوئے گولی مار دی گئی۔ نمازِ جنازہ میں نہ میکے والے شریک ہوئے اور نہ سسرال والے۔‘‘[2]
٭٭٭
|