طریقہ بتا دیا کہ ایک کبوتر لے کر اس کے پاوؤں کو خون سے رنگ لو، پھر اس کبوتر کو چھوڑ دو۔ کبوتر جونہی جاکر قلعے کی دیوار پر بیٹھے گا، طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعے کا پھاٹک کھل جائے گا۔ چنانچہ شاہ پور نے یہی کیا۔ قلعہ فتح کرکے ساطرون کو قتل کر ڈالا، لوگوں کو تہ تیغ کیا اور پورے شہر کو اجاڑ پھینکا۔ پھر لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا اور حسب وعدہ اس سے شادی بھی کر لی۔
ایک رات نضیرہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ وہ تلملاتے ہوئے کروٹیں بدل رہی تھی۔ اسے نیند بالکل ہی نہیں آرہی تھی۔ شاہ پور نے اس کی تلملاہٹ کا سبب پوچھا۔ نضیرہ کہنے لگی: شاید میرے بستر میں کچھ ہے جس کے باعث مجھے نیند نہیں آرہی۔ شاہ پور نے شمع منگوا کر بستر کو ٹٹولا تو اتفاق سے اس میں سے ایک تنکا نکلا۔ شاہ پور اس نزاکت کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنے چھوٹے سے تنکے کے بستر میں ہونے کی وجہ سے اس شہزادی کو نیند نہیں آرہی ہے! چنانچہ پوچھا:
( (ہَذَا الَّذِیْ أَسْھَرَکِ فَمَا کَانَ أَبُوْکِ یَصْنَعُ بِکَ۔))
’’اس معمولی سے تنکے کے سبب تیری نیند اُڑ گئی ہے، (اچھا یہ تو بتاؤ کہ) تیرے باپ نے تیرے آرام و آسائش کے لیے کیا کیا انتظامات کر رکھے تھے۔‘‘
نضیرہ نے جواب میں کہا:
( (کَانَ یَفْرِشُ لِی الدِّیبَاجَ وَیُلقبِسُنِی الحَرِیرَ وَیُطْعِمُنِی المُخَّ وَالزَّبَدَ، وَشَھْدَ أَبْکَارِ النحْل وَصَفْوِ الخَمْرِ۔))
’’میرے باپ نے میرے لیے نرم ریشم کے بستر کا بندوبست کر رکھا تھا۔ مجھے باریک نرم ریشمی لباس پہناتا تھا، نلیوں کا گودا اور مکھن کھلایا کرتا تھا، خالص شہد اور صرف انگوری شراب پلایا کرتا تھا۔‘‘
اور نضیرہ تھی بھی ایسی کہ اچھی غذاؤں کے باعث حسن و جمال کا پیکر بن چکی تھی۔ اس کی ان باتوں نے شاہ پور کا ذہن بدل کر رکھ دیا اور وہ کہنے لگا:
( (فَکَانَ جَزَائُ أَبِیکِ مَا صَنَعْتِ بِہِ أَنْتِ اِلَیَّ بِذَاکِ أَسْرَعُ۔))
|