Maktaba Wahhabi

94 - 531
جہاں تک مستشرقین کا تعلق ہے تو جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ یہ سب کے سب یہودیوں اور عیسائیوں سے تعلق رکھتے تھے اور مغرب کے سامراجی ملکوں کے دینی مشیرکاروں میں شمار ہوتے تھے اور عالم اسلام کے ملکوں پر سامراجی ملکوں کے حملوں اور ان ملکوں میں سامراجی حکومتوں کے قیام کے زمانوں میں ان ملکوں کے مسلم شہریوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنا اور ان کے مذہبی اور شرعی ذخیرہ علم کو مشکوک بنانا ان کے فرائض منصبی میں داخل تھا، لہٰذا صحابہ کرام، محدثین اور مسلم مورخین کو نشانۂ تنقید بنا کر انھوں نے ان کے ذریعہ ملنے والے ذخیرۂ احادیث اور تاریخی واقعات کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے اپنا سارا زور صرف کر ڈالا جس کی ایک جھلک ان الزامات میں دیکھی جاسکتی ہے جو یہودی مستشرق گولڈ زیہر نے امام زہری پر لگائے ہیں ۔ مولانا امین احسن اصلاحی کو میں روایتی منکرین حدیث میں شمار نہیں کرتا اور نہ ان کو اصطلاحی ’’اہل قرآن‘‘ ہی کہتا ہوں ، البتہ یہ ضرور مانتا ہوں کہ احادیث کے قبول و رد، سنت اور حدیث میں تفریق اور بعض ائمہ حدیث کے نقد و احتساب میں انھوں نے جو طرز عمل اختیار کیا تھا اس نے منکرین حدیث کو کافی غذا فراہم کی اور ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے حدیث کو مشکوک اور ساقط الاعتبار قرار دینے کے لیے وہی راگ الاپا جو وہ الاپ رہے تھے۔ اصلاحی صاحب کے حوالہ سے جو بات حد درجہ تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ وہ علم حدیث کے ابجد سے بھی واقف نہیں تھے، لیکن اس خود فریبی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وہ اس میدان میں منفرد اور امتیازی مقام پر پہنچ چکے ہیں ۔ چونکہ اصلاحی صاحب نے اپنے پیچھے ایک خاص حلقہ چھوڑا ہے جو ان کا بے حد معتقد ہے اور انکار حدیث کے مسئلے میں بڑا سرگرم ہے، علی گڑھ، ہندوستان سے نکلنے والے ششماہی ’’علوم القرآن‘‘ میں حدیث کے بارے میں ان کے نقطۂ نظر کے حامی لوگوں کے مضامین وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں حدیث کے وحی الٰہی ہونے کا بصراحت انکار کیا جاتا ہے اور یہاں تک دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’حدیث کی کتابوں میں جن اقوال و اعمال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے ان کو حقیقی معنی میں وحی کہنا صحیح نہیں ہے۔‘‘[1] میں حدیث کے بارے میں اصلاحی صاحب کے تشکیکی نقطہ نظر اور اس سے پیدا ہونے والے برے اثرات کا جائزہ بعد میں لوں گا، پہلے سلسلہ بحث کے اندر رہتے ہوئے ان الزامات کا جواب دینا چاہتا ہوں جو انھوں نے امام زہری پر لگائے ہیں ۔ امام زہری پر یہودی مستشرق گولڈ زیہر کے الزامات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بنوامیہ کے ہم نوا اور پٹھو تھے، دوسرے لفظوں میں ’’ناصبی‘‘ تھے، ناصبی، شیعہ یا شیعی کی ضد ہے، یعنی ایسا شخص جس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آل علی و فاطمہ سے عداوت ہو۔
Flag Counter