Maktaba Wahhabi

57 - 531
’’ہم کو حسن بن سفیان نے خبر دی، کہا: ہم سے ابوبکر بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا: ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا: ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا: ہم سے ہلال بن یساف نے بیان کیا، انھوں نے کہا: میں نے عمران بن حصین کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ، پھر وہ جو ان سے ملے ہوئے آئیں گے، پھر وہ جو ان سے ملے ہوئے آئیں گے، پھر وہ جو ان سے ملے ہوئے آئیں گے۔‘‘ اس حدیث سے جس کی سند بے غبار ہے صحابہ کے بعد تابعین، تبع تابعین اور تبع تبع تابعین کا ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اگر منکرین حدیث اور ان کے ہم نوا یہ اعتراض کریں کہ خیر القرون کی تعداد کے بارے میں احادیث میں اختلاف نے ان کو ناقابل استدلال بنا دیتا ہے یا کم از کم ان کی استدلالی قوت کو متاثر ہی کردیتا ہے تو ہم عرض کریں گے کہ یہ اجمال و تفصیل کا اختلاف ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام سے مختلف اوقات میں اپنے بعد کے اور اپنے صحابہ کے بعد کے ادوار اور زمانوں میں پائے جانے والے لوگوں میں پائی جانے والی عمدہ خصلتوں ، صلاح و تقویٰ کی صفات بیان کرتے ہوئے اس امر کی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ صحابہ کرام کے بعد ان تین زمانوں میں خیر و بھلائی غالب رہے گی، لوگوں میں اگرچہ برائیاں پیدا ہوں گی، مگر ان کا زور کم ہوگا۔ عقیدہ و فکر میں بگاڑ اگرچہ نمودار ہوجائے گا، لیکن صحیح عقیدہ و فکر رکھنے والوں کی اکثریت ہوگی، حدیث کی حجیت اور اس کی استدلالی اور تشریعی حیثیت کو مطعون و مجروح کرنے والے اگرچہ ظاہر ہوجائیں گے، تاہم حدیث کا گہرا علم رکھنے اور معاندین اسلام کو دندان شکن جواب دینے والے زیادہ ہوں گے اور صلاح و تقویٰ اور زہد و ورع کا لبادہ اوڑھ کر دین حنیف کی حقیقی تعلیمات سے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے والے اگرچہ منظر پر آجائیں گے، مگر ان کے مکر و فریب کا پردہ چاک کرنے والے ہر سو بکثرت موجود ہوں گے۔ چونکہ منکرین حدیث اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے قرآن سے بہت استدلال کرتے ہیں ، اگرچہ وہ اپنے استدلال میں مخلص اور حق پسند نہیں ہیں ، پھر بھی ان کے ظاہری اور پُرفریب استدلال کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں حدیث کے مقابلے میں اجمال اور تفصیل کا اختلاف جو بظاہر نظر آنے والا اختلاف ہے، زیادہ ہے، لہٰذا اگر منکرین حدیث قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مذکور صرف موسیٰ علیہ السلام کے قصہ پر ایک طائرانہ نظر ہی ڈال لیں تو وہ حدیث میں اختلافات تلاش کرنے اور ان کی بنیاد پر اس کو ہدف تنقید بنانے سے باز آجائیں گے۔ بہرحال سطور بالا کی مدلل بحث سے صحابہ کرام کے بعد آنے والے تین ادوار یا طبقوں کے ’’خیر القرون‘‘ ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے، اس طرح عصر صحابہ کے ساتھ بہترین اور خیر و بھلائی کے زمانوں کی تعداد صرف تین ہی نہیں ، بلکہ چار ہوجاتی ہے، اسی وجہ سے امام ابن القیم رحمہ اللہ نے چوتھے طبقہ کو بھی خیر القرون یا القرون المفضلہ میں شمار کیا ہے اور ان حدیثوں کو تسلیم کیا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد مزید تین زمانوں کو خیر و بھلائی کا حامل قرار دیا
Flag Counter