Maktaba Wahhabi

44 - 531
جس کا مطلب بالکل واضح ہے، یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول دونوں شرعی مرجع و ماخذ ہیں ، مساوی درجہ میں ہیں اور دونوں کی طرف ایک ساتھ رجوع لازمی اور فرض ہے۔ پھر ﴿اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ فرما کر یہ اعلان فرمادیا گیا کہ جو شخص مدعیٔ ایمان ہوتے ہوئے اپنے نزاعی امور میں اللہ و رسول کو مرجع اور حکم نہیں بناتا وہ حقیقی مومن نہیں ہے اور اس کو اللہ پر اور روز جزا پر بھی ایمان نہیں ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین اس حکم الٰہی پر عمل کرتے ہوئے قرآن و سنت دونوں کو ایک ساتھ شرعی ماخذ مانتے تھے اس مسئلہ میں وہ ان دونوں میں کوئی درجہ بندی نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ مسلمانوں میں پہلے خوارج اور پھر معتزلہ کا ظہور ہوا، خوارج نے اپنے خود ساختہ عقائد سے متعارض ہونے اور معتزلہ نے اپنے عقلی افکار سے ٹکرانے کی وجہ سے ’’احادیث آحاد‘‘ کہہ کر حدیث کے بہت بڑے ذخیرے کو رد کردیا، عقائد، غیبیات اور صفات الٰہی کے باب میں احادیث احاد کو ناقابل استدلال قرار دے دیا وغیرہ۔ متاخرین فقہاء خاص طور پر فقہائے احناف نے اپنے فقہی اسکول کی بنیاد معتزلہ ہی کے نظریہ پر رکھی اور حدیث کے قبول و رد میں انہی کے مجادلانہ طرز کی تقلید کی اپنے فقہی مسلک سے متعارض صحیح ترین حدیث کو معتزلہ ہی کے طرز بحث و استدلال پر عمل کرتے ہوئے رد کرنے کا طریقہ اپنایا، حدیث کے بارے میں احناف کے نقطۂ نظر کو تو میں ان شاء اللہ ’’حدیث اور فقہاء‘‘ کے باب کے تحت واضح کروں گا یہاں صرف اس امر کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ اصولِ فقہ کی کتابوں میں انھوں نے ’’مصادر التشریع الاسلامی‘‘ کے ضمن میں پہلے درجہ پر کتاب اللہ کو اور دوسرے درجہ پر حدیث کو رکھا ہے جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ کسی مسئلہ کا حکم پہلے قرآن میں تلاش کیا جائے اور جب اس میں نہ ملے اس وقت حدیث سے رجوع کیا جائے اور اس میں وہ حکم تلاش کیا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں کسی مسئلہ کا حکم مل جانے کی صورت میں حدیث یا سنت سے رجوع کرنے اور اس کو اس میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں تو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور حدیث میں یہ درجہ بندی نہیں کی ہے اور جس طرح اپنے اوپر اور اپنے رسول پر ایک ساتھ ایمان کا حکم دیا ہے اسی طرح اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم بھی ایک ساتھ دیا ہے، بلکہ اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دے کر اس حکم کو قرآن کے مساوی قرار دے دیا ہے جو قرآن میں نہ بیان کیا گیا ہو، ارشاد الٰہی ہے: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ (النساء:۸۰) ’’جس نے رسول کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ صرف یہی نہیں ، بلکہ قرآن و حدیث کی تشریعی حیثیتوں میں تفریق اور درجہ بندی کو واجب العمل اصول قرار دینے کی غرض سے اس کو اکابر صحابہ کرام کی طرف منسوب کردیا گیا اور اس کو اتنی شہرت دی گئی کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ تشریع
Flag Counter