Maktaba Wahhabi

437 - 531
تدوین کے کام کا آغاز بھی اسی مقدس شہر میں ہو۔ ابو بکر بن حزم مدینہ کا گورنر ہونے کے علاوہ اس کے قاضی بھی تھے، اور امور قضاء کے سب سے بڑے عالم شمار ہوتے تھے، ان کا تعلق مدینہ کے قبیلۂ خزرج سے تھا، ان کی تاریخ ولادت کا ذکر کتابوں میں نہیں ملتا، البتہ ان کی وفات ۱۱۷ھ یا ۱۲۰ھ مطابق ۷۳۵ء یا ۷۳۷ء میں ہوئی۔[1] عجیب اور قابل غور بات یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جس طرح ’’قراء‘‘ کے بکثرت شہادت پا جانے کے نتیجے میں قرآن پاک کے ضائع ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا اور اس کے تدارک کے طور پر خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کا مشورہ دیا تھا، ٹھیک اسی طرح عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی علماء کے اٹھ جانے کے نتیجے میں علم کے مٹ جانے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، واضح رہے کہ تابعین اور ان کے بعد کے ادوار میں ’’علم‘‘ سے حدیث مراد لی جاتی تھی اور علماء سے محدثین، اس واقعہ سے جو نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ یہ کہ حفظ سینہ اصل ہے اور حفظ سفینہ نقل اور قرآن و حدیث دونوں کو ضبط تحریر میں لانے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ جن کے سینوں میں یہ دونوں محفوظ تھے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی اس لیے نہیں کہ اس محفوظ ذخیرۂ علم میں ملاوٹ کا اندیشہ پیدا ہونے لگا تھا۔ جہاں تک قرآن کا معاملہ ہے تو اس کے حفاظ کی تعداد کم اور محدود ہونے کی وجہ سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر جنگوں کا سلسلہ اس طرح جاری رہا اور ’’قراء‘‘ شہید ہوتے رہے تو نعوذ باللہ ایسا وقت نہ آ جائے کہ قرآن کا کوئی قاری زندہ نہ رہے، یہاں یہ اشکال نہیں پیش کیا جا سکتا کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو نص قرآنی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے، پھر اس کے ضیاع کا خوف کیوں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف قرآن ہی نہیں ،بلکہ پورے دین کی حفاظت و غلبہ اور بقاء کا ذمہ اللہ نے لے رکھا ہے، مگر وہ یہ کام اپنے بندوں ہی سے لیتا ہے۔ اور قرآن کی حفاظت اور بقاء کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ حدیث بھی محفوظ رہے، اس لیے کہ اس کے بغیر قرآن پر عمل ناممکن ہے، اور اس کی حفاظت کا کام بھی اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کے دور سے آج تک اپنے بندوں ہی سے یعنی محدثین اور حفاظ حدیث سے لے رہا ہے۔ حدیث کے حفاظ، اور اس کا علم رکھنے والوں کی کثرت تعداد کی وجہ سے یہ خوف تو نہیں تھا کہ یہ دنیا کبھی ایسے لوگوں سے خالی ہو جائے گی جو حدیث کا علم نہیں رکھیں گے، البتہ صحابہ کے بعد تابعین کے دور میں ایسے لوگ پیدا ہونے لگے تھے جو اپنے سیاسی مقاصد اور اپنی فکری و عقائدی گمراہیوں کو دینی رنگ دینے کی غرض سے جھوٹی روایتیں گھڑنے لگے تھے اس تناظر میں عمر بن عبد العزیز نے ’’تدوین حدیث‘‘ کا فرمان جاری کیا، تاکہ صحیح احادیث لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ قلم بند بھی ہو جائیں ۔
Flag Counter