Maktaba Wahhabi

435 - 531
جس پر فوراً عمل درآمد شروع بھی ہو گیا تھا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث کا عمل پہلی صدی ہجری کے اختتام کے ساتھ ہی انجام پایا نہ کہ عباسی خلفاء کے زمانوں میں یا تیسری صدی کے نصف آخر میں ۔ لیکن تدوین حدیث کا عمل تدوین قرآن کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور زیادہ وسیع بھی تھا اور اپنی تکمیل کے لیے طویل وقت کا طالب بھی تھا اس لیے فعلاً اس میں طویل مدت صرف بھی ہوئی، مگر ہزاروں صحابہ اور ہزاروں تابعین کے سینوں میں متفرق شکلوں میں محفوظ رہنے اور طویل عرصہ میں سینوں سے سفینوں میں منتقل کیے جانے کے باوجود حدیث کی حفاظت اس لیے متاثر نہیں ہوئی کہ جس طرح قرآن پہلے دسیوں ، پھر سیکڑوں ، پھر ہزاروں اور پھر لاکھوں افراد کے درمیان بشکل تلاوت تعلیم و تعلم تسلسل کے ساتھ گردش کرتا رہا ٹھیک اسی طرح اور اس کے بالکل متوازی شکل میں حدیث بھی حفظ، روایت اور عمل کی صورت میں لاکھوں نفوس قدسیہ اور محبان رسول کے درمیان تسلسل کے ساتھ گردش کرتی رہی، البتہ جب قرآن کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا گیا تو اس کے مختصر اور مرتب ہونے کی وجہ سے اس کام میں نہ زیادہ زحمت و مشقت کا سامنا کرنا پڑا اور نہ اس کی تکمیل میں زیادہ عرصہ ہی لگا۔ اس کے برعکس جہاں احادیث کی تعداد قرآن کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے وہیں ان کا علم رکھنے والوں کی تعداد بھی ہر دور میں بہت زیادہ رہی ہے اوپر یہ بات آ چکی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان صحابیوں میں سے ہر صحابی کے علم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، سیرت و شمائل اور تقریرات سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات کا نام ’’حدیث‘‘ ہی ہے اور اگر اس بات کو ذہن میں تازہ رکھا جائے کہ حدیث کی مستند کتابوں میں جو احادیث مدون ہیں ان کے راوی صحابہ کرام کی تعداد دس ہزار ہے، تو ’’تدوین حدیث‘‘ کی گراں باری کا کسی قدر اندازہ کیا جا سکتا ہے اس سے اس مدت کا بھی کسی حد تک اندازہ لگ جائے گا جو اس کام کی تکمیل میں صرف ہوئی ہو گی۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات صاف کر دوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صحابہ کرام کی تعداد کے ایک لاکھ چوبیس ہزار ہونے اور راویان حدیث صحابہ کے صرف دس ہزار ہونے میں سطح بینوں کو تضاد نظر آ سکتا ہے اور وہ اس سے یہ غلط استدلال کر سکتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثیں ضائع ہو گئیں اور محفوظ نہیں رہیں ، تو عرض ہے کہ نہ تو دونوں باتوں میں کوئی تضاد ہی ہے اور نہ اس سے غلط نتیجہ نکالنے کی گنجائش ہے اور یہ اس طرح کہ روایت حدیث فرض کفایہ تھی اور جو حدیث کسی صحابی کے علم میں تھی اور اس نے اس کو دوسروں تک پہنچا دیا تو اس طرح اس نے اپنا فرض بھی ادا کر دیا اور ان لوگوں کا بھی جن کے علم میں وہ حدیث تھی اور انہوں نے اس کی تبلیغ نہیں کی دراصل ایک لاکھ چوبیس ہزار کے علم میں ہونے والی حدیثیں دس (۱۰) ہزار صحابہ کے علم میں بھی ہو سکتی تھیں اور آخر الذکر نے اس کی روایت کر کے سب کا حق ادا کر دیا۔
Flag Counter