Maktaba Wahhabi

427 - 531
اور اگر اس رات تمہاری وفات ہو گئی تو تم فطرت پر مرو گے۔‘‘[1] براء بن عازب کہتے ہیں : میں نے یہ کلمات یاد کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے اور جب ((وبنبیک الذی أرسلت)) پر پہنچا تو کہا: ((وبرسولک الذی أرسلت)) اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو: ((وبنبیک الذی أرسلت)) غور فرمائیے کہ نبی کی جگہ رسول کہہ دینے سے معنی اور مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں ہو رہی تھی، بلکہ رسول کا لفظ زیادہ جامع تھا، کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا، اور قرآن پاک میں فعل ’’ارسال‘‘ کے ساتھ نبی اور رسول دونوں کا استعمال ہوا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرما دی اور ((آمنت بنبیک الذی أرسلت)) ہی کہنے کی تاکید فرما دی، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی حدیث کے الفاظ کی حفاظت ضروری ہے اور ان میں اجتہاد و قیاس کے ذریعہ کوئی تصرف اور تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے؟ مولانا کشمیری نے حدیث کی عدم قطعیت پر تیسرا ’’ردہ‘‘ یہ چڑھایا ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہیں چاہتے تھے کہ حدیث سے اسی طرح اختلافات و شبہات کا ازالہ اور نفی کی جائے جس طرح قرآن سے کی جاتی ہے اور اس کو ثانوی درجہ حاصل رہے اور اس میں اجتہاد کی گنجائش باقی رہے… اس انتہائی سنگین اور غیر ذمہ دارانہ دعویٰ کا سادہ مطلب یہ ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کے اندر یہ عقیدہ پیدا کر رہے تھے کہ آپ کے ارشادات اختلاف بیانی سے پاک نہیں ہیں اور ان میں آپ کی نسبت سے شکوک و شبہات بھی ہیں یعنی آپ نے یہ باتیں فرمائی بھی ہیں یا نہیں ؟ اور یہ سب کچھ آپ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس لیے کر رہے تھے کہ نام نہاد مجتہدین آپ کے ارشادات کو بازیچۂ اطفال بنائیں اور ان سے مضحکہ خیز اور نت نئے احکام مستنبط کریں ۔ جہاں تک حدیث میں اختلافات کا دعوی ہے تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ نہ تو اللہ کی کتاب اور احادیث میں باہم کوئی اختلاف یا تعارض ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ خود احادیث آپس مین ایک دوسری کے خلاف اور متعارض ہیں ۔ گزشتہ صفحات میں یہ بات بار بار واضح کی جا چکی ہے کہ احادیث کے مجموعوں میں جو احادیث شامل ہیں ان کا ایک حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے عبارت ہے جن کا اصطلاحی نام ’’قولی حدیث ہے‘‘ ان میں کوئی اختلاف ممکن نہیں ہے، اگر چند حدیثوں میں بظاہر کوئی اختلاف ہے بھی تو اجمال و تفصیل کا اختلاف ہے اور اگر ایک ہی موضوع سے متعلق کسی حدیث کی مختلف سندوں میں الفاظ مختلف آئے ہیں تو وہ مترادفات کے قبیل سے ہیں ، کیونکہ یہ بات معلوم و معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی بات یا ایک ہی موضوع متعدد اوقات اور متعدد مواقع پر فرماتے تھے اور مخاطب کی اہلیت اور اس
Flag Counter