Maktaba Wahhabi

385 - 531
عربوں میں متداول تھے‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر تورات عبرانی اور سریانی میں متداول تھی تو پھر اس میں اور قرآن میں ملاوٹ کا کیا اندیشہ تھا؟ میں گیلانی کے طرز استدلال اور روایات کی صحت و سقم کے بارے میں ان کے مبلغ علم سے قارئین کو واقف کرنے کے لیے ان کی عبارت کا ترجمہ نقل کر دینا چاہتا ہوں ، فرماتے ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں شام و مصر کی فتح کے بعد سریانی اور عبرانی زبانیں سیکھی تھیں ، لیکن میری رائے میں یہ بات صحیح نہیں ہے، کیونکہ مدینہ منورہ ہی میں ان کے ان دونوں زبانوں کے سیکھنے میں کوئی غرابت نہیں ہے آخر کیا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مدینہ منورہ کے ’’بیت المدارس‘‘ میں یہودیوں کی زبان اور ان کا ’’حظ‘‘ نہیں سیکھا تھا؟ پھر عبد اللہ کے ان کو سیکھنے میں کیا مانع تھا؟ جہاں تک تورات اور قرآن کی تلاوت کا معاملہ ہے تو یہ عبد اللہ بن عمرو کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایک دن قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور ایک دن تورات کی۔[1] اور طبقات ابن سعد[2] میں ابو الجلاء الجونی کے تذکرے کے ضمن میں آیا ہے کہ وہ سات دنوں میں قرآن ختم کرتے تھے اور چھ دنوں میں تورات اور ختم کے دن لوگوں کو جمع کر کے کہا کرتے تھے: یہ ایسا دن ہے جس میں رحمت نازل ہوتی ہے۔‘‘ ان دونوں جھوٹے واقعات کو نقل کرنے اور ان پر اپنے باطل نظریہ کی عمارت تعمیر کرنے کے بعد انہوں نے اس خبر کی تکذیب کی ہے جس میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم یہودیوں سے بعض ایسی باتین سنتے ہیں جو ہمیں پسند آتی ہیں ، کیا ہم ان میں سے بعض باتیں لکھ لیں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوگئے۔‘‘ اس روایت کی استنادی حیثیت پر میں بعد میں روشنی ڈالوں گا پہلے میں عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے واقعہ پر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں ۔ عبد اللہ بن سلام کا واقعہ جھوٹ ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے حافظ ذھبی کی تذکرۃ الحفاظ کے حوالہ سے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ نقل کیا ہے وہ جھوٹ ہے جس سے ایک نہایت عظیم المرتبت اور جلیل القدر صحابی کی کردار کشی ہوتی ہے۔ پہلے میں اس واقعہ کی مکمل سند اور اس کا متن نقل کر دینا چاہتا ہوں ، پھر اس پر علمی تبصرہ کروں گا۔ ((قال ابراہیم بن أبی یحییٰ: حدثنا معاذ بن عبد الرحمٰن، عن یوسف بن عبد اللّٰہ
Flag Counter