Maktaba Wahhabi

339 - 531
’’یا یہ لوگ کہتے ہیں ، اس نے اسے گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ ایمان لانے کے نہیں ، تو اگر یہ سچے ہیں تو اس کے مانند ایک ہی بات لے آئیں ۔‘‘ اس آیت میں اگرچہ ’’قرآن‘‘ کی تصریح نہیں ہے، لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قران ہی پر مبنی تھی اور خصوصیت کے ساتھ دور مکی میں آپ کفار مکہ کو قرآن پاک ہی کی نازل ہونے والی آیتیں اور سورتیں سنا کر ان کو توحید کی دعوت دیتے تھے اور شرک اور بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین فرماتے تھے، پھر منکرین کا الزام: ﴿تقولہ﴾ ’’اس نے اسے گھڑ لیا ہے‘‘ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ’’حدیث‘‘ سے مراد قرآن ہی ہے، البتہ اس میں قرآن جیسا کوئی بھی کلام بنا کر پیش کرنے کا عام چیلنج ہے، سورتوں کی تعداد کا تعیین نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سورۂ اسراء کی آیت نمبر ۸۸ میں قرآن کا نام لے کر اس جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج کیا گیا ہے، مگر اس بار بھی سورتوں کا تعین نہیں کیا گیا۔ جب منکرین ان دونوں چیلنجوں کا جواب نہ دے سکے، لیکن بایں ہمہ قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے انکار کی روش پر قائم رہے تو ان کو قرآن جیسی دس سورتیں گھڑ کر پیش کرنے کا چیلنج کر دیا گیا، ارشاد ربانی ہے: ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰیہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (سورۃ ھود:۱۳) ’’یا وہ کہتے ہیں ، اس نے اسے جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے۔ کہہ دو، تو تم اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے بلا سکتے ہو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ وہ نہ اس چیلنج کا جواب دے سکتے تھے اور نہ انہوں نے اس کا جواب دے کر جیتے جی اپنی رسوائی کا کوئی سامان کیا ہے، اس لیے ان کو آخر میں صرف ایک ہی سورت پیش کرنے کا چیلنج کر دیا گیا جس کا جواب دینا بھی ان کے بس میں نہ تھا اور نہ قیامت تک کسی کے بس میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن آیات مبارکہ میں قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کرنے والوں اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا من گھڑت کلام قرار دینے والوں کو قرآن جیسا کلام، اس جیسی دس سورتیں اور پھر آخر میں ایک ہی سورت بنا کر اور گھڑ کر پیش کرنے کا چیلنج کیا ہے ان سب میں ’’مثلہ‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے (بقرہ: ۲۳، یونس:۳۸، ھود:۱۳، اسراء:۸۸، طور:۳۱) تو ’’مثل‘‘ سے مراد مثیل ہے جس کے معنی ہیں : مانند مشابہہ اور نظیر، اور قرآن کے مانند، مشابہ اور نظیر کا مطلب اس کے منفرد انداز بیان، اس کے معجزانہ اسلوب اور نظم کلام، اس کے معانی و مطالب کی جامعیت اور اس کی غیر معمولی بلاغت اور حسن بیان کے مانند کلام ہے، نہ کہ اس کے الفاظ و تراکیب کو الٹ پھیر کر کوئی عبارت گھڑ لینا، کفار مکہ فصاحت و بلاغت اور حسن بیان کے امام تھے اور وہ قرآنی چیلنج کی تہہ تک پہنچ گئے اور خاموشی اختیار کر کے اپنی
Flag Counter