Maktaba Wahhabi

331 - 531
اگرچہ ان میں سے ایک دوسرے کا پشتیبان ہو۔‘‘ صرف یہی نہیں کہ قرآن جیسا کلام تصنیف کرنا انسانوں اور جنوں کی قدرت سے باہر ہے بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی حفاظت بھی حاصل ہے۔ ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹) ’’درحقیقت ہمیں نے ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘ لیکن حدیث یا سنت قرآن پاک کی طرح از اول تا آخر کوئی مرتب کتاب نہیں ہے، وہ وحی الٰہی تو یقینا ہے، لیکن وحی متلو نہیں ہے جس کی نمازوں میں یا نمازوں سے باہر تلاوت کی جاتی ہو وہ قرآن کی شرح، اس کا بیان اور ایسے بہت سے شرعی احکام کا ماخذ ہے جن کا ذکر قرآن میں صراحتاً نہیں آیا ہے، لیکن بشری کلام ہونے کی وجہ سے حدیث کو اعجازی شان حاصل نہیں ہے۔ حدیث یا سنت کا وہ حصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر مشتمل ہے اور جس کو قولی حدیث یا سنت کہا جاتا ہے اگرچہ اس کو اپنے انداز بیان اور طرز ادا میں ایک امتیازی شان حاصل ہے، اس کے لفظ لفظ سے نبوت کی خوشبو پھوٹتی ہے اور فصاحت و بلاغت کی جس منفرد اور بلند چوٹی پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فائز تھے وہ صحیح احادیث کے اسلوب بیان میں نمایاں ہے، پھر بھی حدیث کو ایسا اعجاز حاصل نہیں ہے جس کی ’’محاکاۃ‘‘ کرنا اور اس کے مانند کلام بنانا اور وضع کرنا دوسروں کے لیے ناممکن ہو یہ صحیح اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر دور میں ایسے محدثین رہے ہیں جو عربی زبان و ادب میں غیر معمولی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ برسہا برس حدیث نبوی کے درس و مطالعہ میں مصروف رہنے کے نتیجے میں جہاں دین کے مزاج شناس بن گئے تھے وہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور اسلوب بیان کے رمز شناس بھی بن چکے تھے اور ان کے اندر حدیث نبوی سے پھوٹنے والی خوشبو کو سونگھ لینے اور اس سے نکلنے والی روشنی دیکھ لینے کا ملکہ پیدا ہو گیا تھا، مگر ایسے منفرد افراد معدودے چند ہی ہوتے تھے۔ حدیث یا سنت کا جو حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال، سیرت، شمائل، اور غزوات اور فوجی مہمات وغیرہ کے بیان پر مشتمل ہے۔ حدیث کے اس حصے کے ناقل اور راوی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، جنہوں نے یہ ساری چیزیں اپنی زبان میں بیان کی ہیں ، صحابۂ کرام کی صدق گوئی، امانت داری اور دقت بیانی پر تو جمہور محدثین اور فقہاء کا اتفاق ہے، مگر اہل زبان ہونے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت رہ کر اسلامی تعلیمات کے رنگ میں رنگ جانے کے باوجود تھے تو وہ بشر ہی اس لیے ان کے اسلوب بیان کو اعجازی شان حاصل نہیں تھی کہ اس کی نقالی نہ کی جا سکے۔ اس لیے جہاں تک حدیث یا سنت کے محفوظ رہنے کا معاملہ ہے تو یہ بات ہر شک و شبہ سے پاک ہے کہ اس کا ہر ہر حصہ چاہے وہ قولی حدیث ہو یا فعلی یا تقریر اور تصویب مکمل طور پر محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا، نہ کوئی حدیث ضائع ہوئی ہے اور نہ کبھی ضائع ہو گی، کیونکہ یہ دین ہے اور قرآن کے محفوظ رہنے کا لازمی تقاضا بھی۔
Flag Counter