Maktaba Wahhabi

309 - 531
﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا اَیُّوبَ اِِذْ نَادٰی رَبَّہٗ أَ نِّی مَسَّنِی الشَّیْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ﴾ (ص: ۴۱) ’’اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ درحقیقت شیطان نے مجھے بڑی تکلیف اور عذاب میں مبتلا کردیا ہے ‘‘ ایوب علیہ السلام نے اپنے مبتلائے درد والم ہونے کی نسبت شیطان کی طرف سلسلۂ اسباب وعلل کے تحت کی ہے جس کی مثالوں سے قرآن پاک بھرا ہوا ہے، چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام نے نوجوانی میں ایک قبطی کو گھونسا مارا اور اس کا کام تمام ہوگیا تو یوں گویا ہوئے: ﴿ قَالَ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (قصص:۱۵) ’’کہا یہ شیطان کے عمل سے تعلق رکھتا ہے دراصل وہ کھلا گمراہ کرنے والا دشمن ہے ‘‘ ’’ان عبادی لیس لک علیھم سلطان ‘‘ کا مطلب: ابوریہ، رازی اور دوسرے منکرین حدیث نے صحیح بخاری کی زیر نظر حدیث کو سورۂ حجر کی اس آیت سے متعارض قرار دے کر نہایت جاہلانہ خلط مبحث کیا ہے، کیونکہ دونوں کا اپنے مطلب ومدعا میں ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے حدیث کا مفہوم واضح کیا جا چکا ہے، اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ اس کا انسانوں کو گمراہ کرنے یا ان کو دعوت شر دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس میں صرف عارضی جسمانی اذیت اور تکلیف دینے پر بات فرمائی گئی ہے، جبکہ آیت یہ بتارہی ہے کہ ابلیس کو اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنے پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہے، اور اللہ کے بندوں سے مراد اس کے ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خالص کرلیا ہو اور چن لیا ہو اللہ نے یہ بات اس دعوے کے جواب میں فرمائی ہے کہ’’میں تمام لوگوں کو گمراہ کرکے رکھ دوں گا ‘‘ ساری آیتوں پر ایک ساتھ غور کیجیے: ﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ﴾ (الحجر:۳۹۔۴۰) ’’اس نے کہا اے میرے رب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اس لیے یقینا میں زمین میں ان کے لیے زیب وزینت کا سامان پیدا کر کے ان سب کو گمراہ کردوں گا، سوائے ان میں سے تیرے ان بندوں کے جو چن لیے گئے ہیں ۔‘‘ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ عَبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ ﴾ (۴۱) ’’در حقیقت میرے بندوں پر تجھے کوئی زور نہیں حاصل ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے چنیدہ بندوں پر ابلیس کے جس زور وقدرت کی نفی کی ہے اس سے ان کو گمراہ کرنے اور راہ حق سے ان کو برگشتہ کردینے کا زور وقدرت مراد ہے جس کا زیر بحث حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے اس
Flag Counter