Maktaba Wahhabi

290 - 531
آخرت میں نا مرادوں میں سے ہوگا۔‘‘ قرآن پاک کی سورہ روم کی آیت میں انسانوں کے جس فطرت پر پیدا کیے جانے کی خبر دی گئی ہے صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خوبصورت اور واضح الفاظ میں اسے سمجھا دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مامن مولود إلا یولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہودانہ وینصرانہ کما تنتجون البہیمۃ، ہل تجدون فیہا من جدعاء حتی تکونوا أنتم تجدعونہا۔)) [1] ’’ہر بچہ صرف فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے اور اس کے والدین اس کو یہودی اور نصرانی بنا دیتے ہیں ، جیسا کہ تم جانوروں کی تولید کا کام کرتے ہو، تو کیا تم ان میں سے کوئی کان کٹا یا ناک کٹا پاتے ہو، یہاں تک کہ تم ان کو کان کٹا یا ناک کٹا بنا دیتے ہو۔‘‘ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت انسانی کو جسمانی عیوب سے پاک پیدا ہونے والے جانوروں سے تشبیہ دی ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ جس طرح انسان صحیح سالم اور بے عیب جانوروں کے کان یا ناک کاٹ کر ان کو عیب دار بنا دیتے ہیں اسی طرح فطرت توحید پر پیدا ہونے والے بچوں کو ان کے ماں باپ شرک کی راہ پر ڈال کر ان کے عقائد بگاڑ دیتے ہیں ۔ صحیحین میں انہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سورہ روم کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ’’لا تبدیل لخلق للّٰه ‘‘ کی تفسیر میں بھی منقول ہے، ارشاد نبوی ہے: ((مامن مولود إلا یولد علی الفطرۃ فأبواہ یہودانہ وینصرانہ أو یمجسانہ، کما تنتج البہیمۃ بہیمۃ جمعاء، ہل تحسون فیہا من جدعاء، ثم یقول: فطرت اللّٰه التی فطرالناس علیہا لاتبدیل لخلق اللّٰه ذلک الدین القم۔)) [2] ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے، اور اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ، جس طرح جانور صحیح سالم جانور ہی پیدا کیا جاتا ہے، کیا تم ان میں کوئی کان کٹا یا ناک کٹا محسوس کرتے ہو؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اللہ کی اس فطرت کو لازم پکڑو جس پر اس نے لوگوں کوپیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت مت بدلو یہی سیدھا دین ہے۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’لخلق للّٰه ‘‘ کی تفسیر ’’لدین للّٰه ‘‘ اور ’’الفطرۃ‘‘ کی تفسیر ’’الاسلام‘‘ سے کی ہے اور یہی تفسیر
Flag Counter