Maktaba Wahhabi

269 - 531
اس آیت کو سمجھنے کے لیے غزوہ احد کے واقعات کو سامنے رکھئے جو بدر کے بعد دوسرا عظیم اور معرکۃ الآراء غزوہ تھا اور اس میں حصہ لینے والے وہ جاں نثار ان اسلام تھے جنہوں نے اس وقت تک اللہ ورسول کی معمول سی بھی نافرمانی نہیں کی تھی اور جن کے شب وروز نور ایمان سے منور رہتے تھے اور جنگ میں ان کی شرکت بھی نام و نمود سے پاک محض اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے تھی اور جنگ میں ان کی قیادت سیّد البشر اور افضل المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے تھے، مگر بایں ہمہ جب انہوں نے جنگ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی یہ حکم عددلی اگرچہ صرف چند افراد نے کی تھی اور اس مقام ماموریت کو چھوڑ دیا تھا جہاں اللہ کے رسول نے ان کو نہایت تاکید سے تعینات کیا تھا۔ یہ حکم عددلی اور خلاف ورزی ان کی زندگی کی پہلی اور آخری غلطی تھی، لیکن اس کا جو بھیانک نتیجہ بر آمد ہوا دہ نہ صرف یہ کہ جیتی ہوئی جنگ شکست میں تبدیل ہو گئی۔ بلکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شہید ہو گئی اور اسی کی مانند زخمی ،اور زخمی ہوئے ہونے والوں میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے۔ عبرت کا مقام یہ ہے کہ مسلمانوں کی غلطی سے فائدہ اٹھا کر عقب سے ان پر حملہ کرنے والے اللہ کے دشمن مشرکین تھے جن کی قیادت اس وقت خالد بن ولید کر رہے تھے جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ لیکن اسباب و وسائل کو صحیح اور برمحل استعمال کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو عارضی ہی سہی فتح سے ہمکنار کر دیا اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل دی۔ معلوم ہوا کہ جس طرح اخروی کامرانی کے لیے ایمان وعمل صالح لازمی ہے اسی طرح دنیاوی فتح ونصرت اور مادی عروج وسربلندی کے لیے ان اسباب و وسائل کو استعمال میں لانا بنیاد کا درجہ رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے فراہم کیے ہیں اس میدان میں محض ایمان وتقوی اور کشف وکرامت کافی نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ مادی عروج وترقی میں مسلمانوں کا اغیار سے پیچھے رہ جانا مسلمانوں کے انحطاط وتنزل سے زیادہ اسلام کی مظلومیت پر منتج ہو رہا ہے اور وہ ہر جانب سے غیر مسلموں کی تنقیدوں کا نشانہ بن رہا ہے۔ میں نے تقدیر کے مسئلہ پر اتنی تفصیل سے اس لیے گفتگو کی ہے تاکہ قارئین کے لیے ان اعتراضات کو سمجھنا آسان رہے جو شیخ غزالی نے ان صحیح احادیث پر کیے ہیں جن میں تقدیر یا قضا وقدر کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔ غزالی نے جس پہلی حدیث کی صحت کو نشانہ بنایا ہے وہ صحیحین میں مروی نہ ہونے کی وجہ سے میرے موضوع سے خارج ہے۔ رہی دوسری حدیث جو صرف صحیح مسلم میں آئی ہے وہ بھی میرے موضوع سے خارج ہوتی اگر اس موضوع اور مضمون کی حامل احادیث صحیح بخاری میں نہ آئی ہوتیں اور صحیحین کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ اور تعلق نہ ہوتا۔ میں پہلے حسب معمول حدیث کی مکمل سند اور اس کا متن نقل کرکے اس کی صحت پر ان کے اعتراضات نقل کروں گا پھر ان کا ایک ایک کرکے جواب دیتے ہوئے یہ دکھاؤں گا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے، اثنائے کلام میں غزالی کی تضاد
Flag Counter