Maktaba Wahhabi

264 - 531
’’امر واقعہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم بن کر حاضر ہوگا اس کے لیے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جیے گا اور جو اس کے پاس مومن بن کر اس حال میں حاضر ہوگا کہ اس نے نیک اعمال انجام دیے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے بلند درجات ہیں ۔ سدا بہار باغات جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں ۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ ہے اس شخص کی جزا جو پاکیزگی اختیار کرے۔‘‘ غور کا مقام ہے کہ مجرم (کافر ومشرک) کے مستحق عذاب ہونے کے لیے عمل کی قید نہیں لگائی گئی، جبکہ مومن کے مستحق جزا ہونے کے لیے نیک اعمال انجام دینے کی قید ہے۔ معلوم ہوا کہ کفر و شرک سے موصوف انسان کے کسی عمل کا کوئی اعتبار نہیں ، لیکن مومن صرف اسی صورت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکے گا۔ جب ایمان کے ساتھ اس نے نیک اعمال بھی انجام دیے ہوں گے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ایمان میں عمل داخل ہے۔ ۳۔ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی، اس کی مشیت وارادہ، اور اس کے قضا وقدر میں اور اس کی عطا کردہ آزادی ارادہ اور اس آزادی عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا ہے، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کا خالق اور رب ہے تو اس کائنات کی ہر چیز کے بارے میں اس کے وجود میں لانے سے پہلے اس کا عالم ہونا ضروری ہے، عقائد کی زبان میں اس بات کو یوں کہہ سکتے ہیں : دنیا کی تخلیق سے پہلے وہ خالق تھا، کائنات کو وجود میں لانے سے پہلے وہ رب تھا اور مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی اس کو یہ علم تھا کہ وہ کیا کرے گا، کیونکہ خلق، ربوبیت اور علم اس کی صفات ازلی وابدی ہیں جن سے وہ ہمیشہ سے موصوف ہے اور ہمیشہ موصوف رہے گا۔ ۴۔ تقدیر کے مسئلہ میں کھوج کرید اور بحث وجدال کا حاصل حیرانی اور تذبذب کے سوا کچھ نہیں ، کیونکہ یہ عقل کی رسائی اور گرفت سے باہر ہے اسی وجہ سے حدیث میں اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : ’’اس حال میں کہ ہم تقدیر کے مسئلہ میں آپس میں جھگڑ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے اور ہماری باتیں سن کر اس قدر غضبناک ہو گئے کہ آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سرخ ہو گیا گویا آپ کے دونوں رخساروں پر انار نچوڑ دیا گیا ہو اور آپ نے فرمایا: ((أبہٰذا أُمرتم، أم بہٰذا أُرسِلتُ إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تناز عوا فی ہذا الأمر، عزمت علیکم ألاتنازعوا فیہ۔)) [1] ’’کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے یا میں یہی تعلیم دے کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں ؟ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ اور جھگڑنا شروع کر دیا تو وہ ہلاک ہو گئے، میں
Flag Counter