Maktaba Wahhabi

248 - 531
کے انتقال کے کافی عرصہ بعد مدینہ منورہ پر مروان بن حکم کی گورنری کے زمانے میں محل بحث آیا تھا اور ام المومنین نے اس واقعہ اور حدیث کی عدم صحت کے بارے میں جو کچھ فرمایا تھا یا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح قرآن کے ظاہری مفہوم پر مبنی تھا، یا ان کا قیاس و اجتہاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد پر مبنی نہیں تھا، ورنہ وہ اس کا حوالہ دیتیں اور یہ معلوم ہے کہ کسی صحیح حدیث سے متعارض قرآن پا ک کی تفسیر یا کسی صحیح حدیث کے مقابلے میں قیاس اور اجتہاد ناقابل التفات ہے۔ رہا ام المومنین رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مکان ایک ویرانے میں تھا جہاں ان کی سکونت اور رہائش پر خطر تھی اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رہائش نہیں دی، تو اس کے بارے میں بھی عرض ہے کہ یہ محض ام المومنین کا خیال ہے جو اگر صحیح ہوتا اور اگر اس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رہائش سے محروم کیاہوتا، تو ان کا واقعہ سن کر آپ یہ نہ فرماتے: ((لا نفقۃ لک ولا سکنی)) ’’اور سنن نسائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد نقل ہوا ہے اس نے تو ہر خیال آرائی اور قیاس کا خاتمہ کردیا ہے، ارشاد نبوی ہے: ((انما النفقۃ والسکنی للمرأۃ اذا کان لزوجھا علیھا الرجعۃ)) [1] ’’نفقہ اور سکونت صرف اس عورت کا حق ہے جس کے شوہر کو اس سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہو۔‘‘ دراصل صحیح مسلم میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے واقعہ کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں وہ پوری قطعیت کے ساتھ یہ بتا رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ ان کے اپنے مسئلہ کا حکم بیان فرما دیا تھا، بلکہ ایسی تمام عورتوں کے بارے میں جن کو تین طلاقوں کے ذریعہ جداکردیا گیا ہو پوری وضاحت سے یہ بتا دیا تھا کہ ایام عدت میں ان کو خرچ اور رہائش کا حق حاصل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو یہ حکم دینا کہ وہ عدت کے ایام حضرت ابن مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر میں گزاریں اور عدت ختم ہونے پر آپ کو اطلاع دیں ، پھر ان کا آپ کو اطلاع دینا اور آپ کا ان کو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دینا، یہ تمام باتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کی روایت کردہ حدیث محض ایک قولی فرمان نہ تھی، بلکہ ایک ایسا اصولی حکم تھی جس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کی پوری جزئیات کے ساتھ عمل کیا تھا۔ رہے وہ بعض مفسرین اور فقہاء جنہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا پر یہ گھٹیا الزام لگایا ہے کہ وہ نعوذ باللہ بد زبان تھیں ، زبان کی تیز تھیں اور اپنی زبان درازی سے اپنے شوہر کے گھر والوں کو اذیت دیا کرتی تھیں اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سکونت اور نفقہ سے محروم کردیا تھا۔ تو ایسے افترا پردازوں سے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ان کا یہ گندہ الزام صحیح ہے تو پھر ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنے محبوب ترین صحابی اور محبوب ترین صحابی کے بیٹے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کردیا، جن سے پہلے امیر معاویہ اور ابو جہم رضی اللہ عنہما ان سے نکاح کی خواہش ظاہر کر چکے تھے، کیا یہ
Flag Counter