Maktaba Wahhabi

238 - 531
سابقہ صفحات میں جن حدیثوں پر غزالی کے اعتراضات کا تفصیلی علمی جائزہ لیا گیا ہے ان کے مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہوگئی ہوگی کہ قرآن کے درس و مطالعہ پر ان کے زور دینے اور ظاہر قرآن کو دلیل وحجت بنانے پر اکتفا کرنے کی اہمیت بیان کر نے سے ان کا بنیادی مقصد قرآن وسنت کی تشریعی حیثیتوں میں تفریق کرنا، اور حدیثوں کی صحت پر فقہاء کے اصولوں کی روشنی میں حکم لگانے کی دعوت دینا ہے محدثین کے اصول تصحیح و تضعیف کی روشنی میں نہیں ۔ اپنی مذکورہ بالا عبارت کا آغاز انہوں نے حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کے کتاب اللہ کے ساتھ اہتمام برتنے اور صرف اسی کو تشریعی بنیاد بنانے کے دعوی کے ساتھ صرف اس لیے کیا ہے تا کہ وہ قارئین کو یہ باور کرا سکیں کہ قابل اعتماد صرف قرآن ہے حدیث نہیں ، الایہ کہ جو حدیثیں ان کی آراء وافکار سے ہم آہنگ ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے اسود بن یزید اور عمر بن شراحیل شعبی کے درمیان پیش آنے والے واقعہ کا ذکر اہل الحدیث پر اہل الرائے کی برتری دکھانے کے لیے کیا ہے، جس کے پس پردہ امام شعبی کی صورت میں محدثین کی مذمت اور اسود بن یزید کی صورت میں حدیث کے قبول ورد میں رائے اور عقل میں استعمال کی تحسین ہے یہ محض میری رائے نہیں ہے بلکہ ان کی یہ کتاب محدثین کی طعن وتشنیع اور ان کی تجریح و تضحیک اور فقہاء کی مدح سرائی اور تحسین کے کلمات سے بھری ہوئی ہے۔ غزالی نے اسود بن یزید اور شعبی کے درمیان کوفہ کی مسجد اعظم میں پیش آنے والے واقعہ کے راوی کا نام ابن اسحاق لکھا ہے جن سے ان کی مراد شاید مشہور صاحب سیرت محمد بن اسحاق بن یسار مطلبی مدنی متوفی ۱۵۱ ھ ہیں ، جبکہ اس واقعہ کے راوی ابو اسحاق عمر وبن عبداللہ ہمدانی کوفی متوفی ۱۲۷ھ ہیں اس سے ان کے مبلغ علم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے!! اس واقعہ پر تبصرہ تو ان شاء اللہ میں بعدمیں کروں گا، پہلے میں سورۂ طلاق کی آیت نمبر۱ کے فقرہ: ﴿لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِنَّ ﴾ ’’ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔‘‘ اور آیت نمبر ۶ کے فقرہ: ﴿اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنتُمْ مِّنْ وُجْدِکُمْ ﴾ (الطلاق: ۶) ’’تم ان کو اپنی استطاعت کے مطابق اس جگہ رکھو جہاں تمہاری سکونت ہے۔‘‘ کی ان کے سیاق وسباق کی روشنی میں وضاحت کردینا مناسب خیال کرتا ہوں تا کہ صورت مسئلہ واضح رہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کو مذکورہ دونوں فقروں کے خلاف سمجھ کر رد کیا تھا، جبکہ اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ آیت نمبر۱ کے فقرہ: تم نہ تو ان کو ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الایہ کہ وہ صریح برائی کا ارتکاب کربیٹھیں ، کا تعلق ایسی مطلقہ عورتوں سے ہے جن کو رجعی طلاق دی گئی ہو، اس کی دلیل آیت کا یہ فقرہ:
Flag Counter