Maktaba Wahhabi

229 - 531
ابوبکر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم حق سوچنے اور حق بولنے کی صفت سے عاری تھے، بلکہ ارشاد نبوی کا مطلب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس صفت میں خصوصی طور پر موصوف تھے اور ان کی منفرد حق پسندی کی وجہ سے ان کی یہ پہچان بن گئی تھی کہ شیطان ان کے دل میں وسوسہ اندازی نہیں کرپاتا تھا اور حالات نے بہت جلدیہ ثابت کردیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا، وہ امر واقعہ کی صورت میں منظر عام پر آگیا اور پہلے خوارج نے پھر معتزلہ نے رجم کی سزا کا یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ سزا قرآن میں نہیں بیان ہوئی ہے۔ موقع کی مناسبت سے یہاں اس امر کی جانب اشارہ کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صرف قرآن کو ماخذ شریعت ماننے والوں اور حدیث کا انکار کرنے والوں کی پیشین گوئی موجود ہے، ارشاد نبوی ہے: ((لا الفین احدکم متکئاً علی اریکتہ یاتیہ الامر من امری، مما امرت بہ اونھیت عنہ، فیقول: لا ادری ماوجد نا فی کتاب اللّٰه اتبعناہ)) ’’میں ہرگز نہ پاؤں تم میں سے کسی کو کہ وہ مسند پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس کو میرے احکام میں سے کوئی ایسا حکم جس میں میں نے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو یا کسی کام سے روکا ہو پہنچے اور وہ کہے کہ میں نہیں جانتا، جو کچھ ہم نے اللہ کی کتاب میں پایا ہے یا پائیں گے اس کی پیروی کریں گے۔‘‘[1] ایک دوسر ی حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((الا انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ، الایوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول: علیکم بھذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ…)) ’’غور سے سن لو، مجھے کتاب اور اسی کی مانند ایک اور چیز دی گئی ہے، خبردار، قریب ہے کہ ایک آسودہ شکم شخص اپنی مسند پر براجمان ہو کر کہے گا: اس قرآن کو لازم پکڑو؛ اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال مانو اور جو حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔‘‘[2] یہ حدیثیں جہاں منکرین حدیث کے ظہور کی پیشین گوئی ہیں ، وہیں ان کے لیے وعید بھی اور ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں منکرین حدیث کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔
Flag Counter