Maktaba Wahhabi

224 - 531
ربک)) ’’اپنے رب کو جواب دو‘‘ یعنی موت کے ذریعہ اس دنیا سے اپنے رب کی طرف منتقل ہو۔‘‘[1]چونکہ وہ بصورت انسان آیا تھا اس لیے موسی علیہ السلام نے اس کے اس حکم کا جواب اس کو طمانچہ مار کر دیا جو ایک طبعی تصرف تھا، ان کے اس طرز عمل سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ موت کو ناپسند کرتے تھے بیمار ذہنیت کا ترجمان ہے۔ مزید یہ کہ صحیحین کی یہ دوسری حدیث موت کی ناپسندیدگی کو مطلقاً معیوب نہیں قرار دے رہی ہے، بلکہ موت کی گھڑی آ جانے پر اس کی ناپسندیدگی کو کافر کی صفت قرار دیتی ہے؛ حدیث کے الفاظ ہیں : ((عن عبادۃ بن الصامت، عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ، قال: من أحب لقاء اللّٰہ أحب اللّٰہ لِقاء ہٗ، ومن کرہ لقاء اللّٰہ کرہ اللّٰہ لِقاء ہ، قالت عائشۃ أو بعض أزواجہ: اِنا لنکرہ الموت، قال: لیس ذاک، ولکن المؤمن اِذا حضرہ الموت بُشر برضوان اللّٰہ وکرامتہ، فلیس شئی أحب الیہ مما أمامہ، فأحب لقاء اللّٰہ وأحب اللّٰہ لقاء ہِ وان الکافر اِذا حُضِرَ بشر بعذاب اللّٰہ وعقوبتہ، فلیس شئی أکرہ اِلیہ مما أمامہ، کرہ لقاء اللّٰہ وکرہ اللّٰہ لقاء ہ)) ’’عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اللہ اس سے ملاقات کو محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ کی لقاء کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس کی لقاء کو ناپسند کرتا ہے۔ عائشہ یا آپ کی کسی دوسری بیوی نے عرض کیا: درحقیقت ہم سب موت کو ناپسند کرتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کراھیت نہیں ، بلکہ جب مومن کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کی رضا اور اس کی عزت بخشی کی خوش خبری دی جاتی ہے، لہٰذا اس کے نزدیک اس کے سامنے کی موت سے زیادہ کوئی اور چیز محبوب نہیں ہوتی، اس طرح وہ اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی لقاء کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے، لہذا اس کے نزدیک اس کے سامنے کی موت سے زیادہ کوئی اور چیز ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔ اس نے اللہ سے ملنے کو ناپسند کیا تو اللہ نے اس کی لقاء کو ناپسند کیا۔‘‘[2] اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا آپ کی کسی دوسری بیوی نے موت کی عمومی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نکیر یا تردید نہیں فرمائی، بلکہ یہ فرمایا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی لقاء کی جس ناپسندیدگی کو بیان فرمایا ہے، اس سے مراد وہ ناپسندیدگی اور کراھیت نہیں ہے جو ہر شخص موت سے رکھتا ہے، یاد رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور اس کے ساتھ لام تاکید لا کر اس بات پر زور دیا ہے کہ موت ایک مکروہ اور ناپسندیدہ
Flag Counter