Maktaba Wahhabi

217 - 531
فضائل و مناقب میں فرق مراتب کے باوجود کتاب اللہ کے بارے میں یہی طرز عمل رکھتے تھے اور ان کی زندگی عقیدہ و عمل میں اس خلاف ورزی سے پاک تھی۔ سہو و نسیان کی بات الگ ہے لیکن نص قرآنی کے پاس پہنچ کر رُک جانے، اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے اور اس کی خلاف ورزی نہ کرنے کی بات قدرے تفصیل کی محتاج ہے۔ اگر مذکورہ بات سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی کسی نص، کسی بیان اور کسی حکم کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی صحابی سوچ بھی نہیں سکتا تھا تو یہ بات صد فیصد درست ہے اور اس صفت میں عائشہ اور غیر عائشہ سب برابر تھے، بلکہ صحابہ کرام کے بعد کے ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ بھی۔ نام نہاد فقہاء نہیں ۔ قرآن پاک کی دانستہ خلاف ورزی کی مذموم صفت سے پاک تھے۔ لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ حدیث و فقہ قرآن پاک کے ہر ظاہری الفاظ۔ حقیقی نہیں ۔ کے خلاف ہر طرح کی حدیث کا انکار کر دیتے تھے تو یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے ظاہری لفظی اختلافات خود قرآن کریم کے اندر موجود ہیں ، جبکہ وہ خود یہ اعلان کر رہا ہے کہ: ﴿وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا﴾ (النساء: ۸۲) ’’اور اگر وہ غیر اللہ کے پاس سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے۔‘‘ اس اعلان الٰہی کے بموجب قرآن پاک کی بعض آیتوں کے درمیان اگر کوئی اختلاف نظر آتا ہے تو یہ فہم و نظر کے قصور کا نتیجہ یا سوء فہم کی پیداوار ہے حقیقی نہیں ہے۔ ٹھیک یہی حال قرآن و سنت کے مابین پائے جانے والے اختلافات کا بھی ہے، یاد رہے کہ میں جب حدیث کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے میری مراد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد، وہ فعل، سیرت پاک کا وہ واقعہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی صحابی کے قول یا فعل کی وہ تصویب اور تقریر ہوتی ہے جس کی نسبت محدثین کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ہو۔ چونکہ قرآن و حدیث دونوں کا ماخذ اور سرچشمۂ نور ایک ہی ہے اور قرآن کی تلاوت اور اس کی تشریح و توضیح کی شکل میں زبان نبوت سے جو کچھ نکلتا تھا وہ وحی الٰہی ہی سے عبارت تھا۔ ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی ﴾ اس لیے نقل سے پہلے عقل ان دونوں میں کسی اختلاف کی نفی کرتی ہے، ورنہ یہ پورا دین ناقابل اعتبار ٹھہرے گا، کیونکہ دین قرآن و حدیث یا کتاب و سنت ہی کے مجموعی احکام کا نام ہے نہ کہ ان میں سے کسی ایک کا اور کلمۂ ایمان، اگرچہ دو حصوں پر مشتمل ہے؛ ۱۔ تنہا اللہ کی الوہیت کا اقرار اور شہادت ۲۔ تنہا محمد بن عبد اللہ کی نبوت و رسالت کا اقرار و شہادت۔ مگر یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ، یوں تو ذکر میں یہ دونوں آگے پیچھے آتے ہیں ، لیکن صحت ایمان کے لیے دونوں پر ایک ساتھ دل کا یقین زبان سے اقرار اور اعمال سے دونوں کی گواہی ایک ساتھ مطلوب ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور اگر بظاہر کوئی اختلاف ہے جو سرے سے اختلاف ہے ہی نہیں جیسا کہ سطور بالا میں پوری تفصیل سے واضح کیا جا چکا ہے اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter