Maktaba Wahhabi

211 - 531
متصادم ہے جس سے انہوں نے اس کی عدم صحت پر استدلال کیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے سابقہ حدیث کو رد کرتے ہوئے اس کے بالمقابل جو حدیث بیان کی تھی وہ ان کی رد کردہ حدیث کے ہم معنی ہونے کے ساتھ بظاہر ارشاد الٰہی کے خلاف ہے نہ کہ حقیقت میں ، اسی طرح اس حدیث کے بالمقابل انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے جو حدیث بیان کی ہے وہ بھی زیر نظر مسئلہ میں ابن عمر اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہم کی روایت کردہ حدیث کے مطابق اور ان کی پیش کردہ آیت قرآنی کے بظاہر برخلاف ہے اس طرح ام المؤمنین نے دونوں جگہ نادانستہ طور پر خود اپنے دعووں کے خلاف دلائل فراہم کر دئیے ہیں ، تفصیلات درج ذیل ہیں : غزوہ بدر ۱۷ رمضان ۲ھ میں برپا ہوا، اور حضرت عمر، ابن عمر اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہم نے بنفس نفیس اس میں حصہ لیا، اختتام معرکہ پر بدر کے کنویں ۔ قلیب ۔ میں سرداران قریش کی لاشوں کے پھینکے جانے کے واقعہ کا انہوں نے مشاہدہ کیا، معرکہ کے تین دن بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کنویں کے پاس تشریف لے جانے کے موقع پر آپ کے ساتھ، اہل قلیب کو مخاطب بناتے ہوئے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور جو کچھ آپ نے فرمایا اس کو اپنے کانوں سے سنا اور دلوں میں محفوظ کیا۔ جبکہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا معرکہ بدر کے کسی بھی واقعہ کی شاہد نہ تھیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ہونے کی حیثیت سے، معرکہ بدر کے بعد شوال ۰۲ھ میں ان کی رخصتی ہوئی [1] بایں ہمہ تین جلیل القدر صحابیوں کی روایت کردہ حدیث کا انہوں نے جس وثوق سے انکار کیا ہے وہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب معلوم کرنا ضروری ہے اس لیے نہیں کہ ان کی اس تکذیب یا انکار سے ان عظیم صحابیوں کی ثقاہت پر زد پڑتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی روایت حدیث مشکوک ہوتی ہے، بلکہ اس سوال کا جواب معلوم کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ام المؤمنین نے یہ طرز عمل کیوں اختیار کیا، جس میں وہ کسی بھی حیثیت سے حق بجانب نہ تھیں ، غور کرنے سے اس سوال کا جو جواب سمجھ میں آتا ہے اور جس کے سوا اس سوال کا کوئی اور جواب ہے بھی نہیں اور وہ جواب یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مذکورہ حدیث کو ارشاد الٰہی: ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ (النحل: ۸۰) ’’حقیقت یہ ہے کہ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے۔‘‘ ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْر﴾ (فاطر: ۲۲) ’’درحقیقت اللہ جسے چاہتا ہے سنوا سکتا ہے اور تم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔‘‘ کے خلاف سمجھ لیا تھا اور جو بات یا حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ صحیح نہیں ہو سکتی، بلکہ قرآن کی کوئی آیت کسی دوسری قرآنی آیت کے خلاف نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی صحیح حدیث کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو سکتی ہے، اگر ایسا کوئی اختلاف قرآن کی دو آیتوں یا دو تعبیروں یا دو صحیح حدیثوں میں نظر آتا ہے تو وہ حقیقی نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے بلکہ فہم و نظر کے قصور کا نتیجہ ہے، اور اس قصور فہم و نظر سے انبیاء کے علاوہ کوئی بھی
Flag Counter