Maktaba Wahhabi

204 - 531
علیہ)) بھی اس سے متعارض ہے، اس لیے کہ گھر والوں کا رونا نہ عام مردوں کا فعل ہے کہ ان کو اس کی سزا دی جائے اور نہ کافر مردہ کا فعل ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ حضرت عمر، ابن عمر، ابو موسی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کی مرفوع حدیث میں صرف ’’میت‘‘ کا لفظ آیا ہے اس کی صفت ’’مومن‘‘ نہیں آئی ہے، بلکہ یہ صفت ام المؤمنین کی روایت بالمعنی میں آئی ہے جسے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنے بغیر اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے اس طرح انہوں نے اپنی رائے کا اظہار فرمایا ہے۔ اب رہیں وہ حدیثیں جن کی بنیاد پر انہوں نے زیر بحث حدیث کا انکار کیا ہے تو وہ ایک نظر میں یوں ہیں : ۱۔ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر میں مبتلائے عذاب ہے۔‘‘ ۲۔ اس کو اس کی معصیت اور گناہ پر عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پررو رہے ہیں ۔‘‘ تو یہ دونوں حدیثیں جس طرح ان کی رائے میں حدیث: ((ان المیت لیعذب ببکاء اھلہ علیہ)) سے متصادم ہیں ٹھیک اسی طرح ان کی روایت کردہ حدیث: ((اِن اللّٰہ لیزید الکافِر عذابا ببکاء أھلہ علیہ)) سے متصادم ہیں ۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ چاروں حدیثوں ۱۔ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ ۔۲ ۔ اللہ کافر کے عذاب میں اس پر اس کے گھر والوں کے رونے سے اضافہ کر دیتا ہے‘‘ ۳۔’’لوگ اس مردہ یہودی عورت پر رو رہے ہیں اور وہ اپنی قبر میں مبتلائے عذاب ہے‘‘ ۴۔ اس کو اس کی معصیت اور گناہ پر عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر رو رہے ہیں ‘‘ میں کوئی معمولی سے ٹکراؤ بھی نہیں ہے، بلکہ ہر حدیث دوسری سے بالکل مختلف مفہوم، مگر غیر متعارض مفہوم رکھتی ہے ان حدیثوں میں اتنا تعارض بھی نہیں ہے جتنا ظاہری تعارض قرآن کی ان دو آیتوں : ﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ ﴾ ’’جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے۔‘‘ [1] اور ﴿وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ﴾ ’’اور یقینا تم سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہو‘‘[2] میں ہے۔ خلاصہ بحث یہ کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس زیر بحث حدیث کے انکار میں محض رائے اور اجتہاد سے کام لیا ہے اور کتاب و سنت کی کسی نص کے مقابلے میں کسی بھی فرد بشر کی رائے اور اجتہاد کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اس مسئلہ میں امام الائمہ، شیخ الاسلام اور مجدد امت ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول مسک الختام کا درجہ رکھتا ہے، فرماتے ہیں : اس حدیث کو اکابر صحابہ نے قبول کیا ہے جن میں سے ایک عمر ہیں اور جب ان کو زخمی کیا گیا تو انہوں نے اسے بیان کیا، جبکہ ان کی خدمت میں مہاجرین اور انصار موجود تھے، انہوں نے صہیب کو نوحہ کرنے سے منع کیا تو کسی نے ان کی نکیر نہیں کی، اپنے عہد امارت میں وہ ان زندہ لوگوں کو سزا دیتے تھے جن کے فعل سے میت کو عذاب ہوتا تھا، اس حدیث کو سعید بن مسیب جیسے اکابر تابعین نے سنا اور اس کے لفظ اور معنی میں سے کسی چیز کو بھی رد نہیں کیا۔
Flag Counter